وہی رہروی، وہی بے خودی، وہی بندگی میں جنون سا
کوئی سنگِ راہ جہاں ملا، وہیں بڑھ کے سر کو جھکا دیا
یونہی بے ارادہ جو اٹھ گئی، کسی شاخِ گل کی طرف نظر
تو فضا میں شعلے بھڑک اٹھے، ابھی آشیان بنا نہ تھا
وہی زہرغم وہی تلخیاں، وہی ظلمتیں، وہی سختیاں
وہی اک شرارہ امید کا، کبھی جل اٹھا، کبھی بجھ...