اے دل الجھ گیا ہے مذاقِ نظر کہاں
منزل کہاں یہ حسنِ سرِ رہ گزر کہاں
گم ہو چکی ہے کاہکشاں گردِ راہ میں
اب دیکھیے ہو ختم ہمارا سفر کہاں
مانا چمن میں حکم زباں بندیوں کے ہیں
رازِ جنوں کو فاش کریں ہم مگر کہاں
خارا شگافیوں کے زمانے گزر گئے
اب ڈھونڈتا ہے شوق کہ ہیں شیشہ گر کہاں
فکر و فن کا یوں تو ٹھاٹھیں مارتا دریا ہوں میں
کون لیکن اس کو دیکھے، کس قدر پیاسا ہوں میں
کچھ سمجھ ہی میں نہیں آتا ہے آخر کیا ہوں میں
میں کسی جلوے کا پردہ ہوں کہ خود جلوہ ہوں میں
میں خود اپنے سامنے کچھ بھی سہی اے دل! مگر
مشتری جس کو نہیں ملتا ہے وہ سودا ہوں میں
جس طرح اک اعترافِ جُرم...