منصوُر ہر اِک دَور میں بیدار ہُوا ہے
افسانہ کہِیں ختم سَر ِدار ہُوا ہے
مُدّت میں جو اُس شوخ کا دِیدار ہُوا ہے
تا دیر ، سمجھنا مجھے دُشوار ہُوا ہے
بے نام و نِشاں ایسا بھی اِک وار ہُوا ہے
ہر عزم، ہر اِک حوصلہ بیکار ہُوا ہے
کیا کیا نہ تپایا ہے اِسے آتش ِغم نے
تب جا کے یہ دِل شُعلۂ بیدار ہُوا...
ذرّوں سے باتیں کرتے ہیں، دِیوار و دَر سے ہم
وابستہ کِس قدر ہیں ، تِری رہگُذر سے ہم
دیکھا جہاں بھی حُسن، وہیں لَوٹ ہو گئے!
تنگ آ گئے ہیں اپنے مزاجِ نظر سے ہم
چھیڑَیں کسی سے، اور ہمارے ہی سامنے!
لڑتے ہیں دِل ہی دِل میں، نَسِیمِ سَحر سے ہم
اِتنی سی بات پر ہے بس اِک جنگِ زرگری
پہلے اُدھر...
کوئی جیتا ، کوئی مرتا ہی رہا
عِشق اپنا کام کرتا ہی رہا
جمع خاطر کوئی کرتا ہی رہا
دِل کا شیرازہ بِکھرتا ہی رہا
غم وہ میخانہ، کمی جس میں نہیں
دِل وہ پیمانہ، کہ بھرتا ہی رہا
حُسن تو تھک بھی گیا ، لیکن یہ عِشق
کارِ معشوقانہ کرتا ہی رہا
وہ مِٹاتے ہی رہے، لیکن یہ دِل
نقش بن بن کر اُبھرتا...
پرائے ہاتھوں جینے کی ہوس کیا
نشیمن ہی نہیں تو پھر قفس کیا
مکان و لامکاں سے بھی گزر جا
فضائے شوق میں پروازِ خس کیا
کرم صّیاد کے صد ہا ہیں پھر بھی
فراغِ خاطرِ اہلِ قفس کیا؟
محبت سرفروشی، جاں سپاری
محبت میں خیالِ پیش و پس کیا
اجل خود زندگی سے کانپتی ہے
اجل کی زندگی پر دسترس کیا
زمانے پر قیامت...
یک لحظہ خوشی کا جب انجام نظر آیا
شبنم کو ہنسی آئی، دل غنچوں کا بھر آیا
یہ کون تصور میں ہنگامِ سحر آیا
محسوس ہوا جیسے خود عرش اتر آیا
خیر اس کو نظر آیا، شر اس کو نظر آیا
آئینے میں خود عکسِ آئینہ نگر آیا
اُس بزم سے دل لے کر کیا آج اثر آیا
ظالم جسے سمجھے تھے، مظلوم نظر آیا
اس جانِ تغافل نے پھر...
غزلِ
جِگرمُرادآبادی
اِک مئے بےنام، جو اِس دِل کے پیمانے میں ہے
وہ کِسی شِیشے میں ہے، ساقی، نہ میخانے میں ہے
پُوچھنا کیا، کتنی وُسعت میرے پیمانے میں ہے
سب اُلٹ دے ساقیا! جِتنی بھی میخانے میں ہے
یوں توساقی، ہرطرح کی، تیرے میخانے میں ہے
وہ بھی تھوڑی سی، جو اُن آنکھوں کے پیمانے میں ہے...
جگر مُرادآبادی کا شمار غزل کے آئمہ میں سے ہوتا ہے، فقر و فاقہ و مستی میں زندگی بسر کی اور یہی کچھ شاعری میں بھی ہے۔ کسی زمانے میں ان کا ہندوستان میں طوطی بولتا تھا اور ہر طرف جگر کی غزل کی دھوم تھی۔ انکے کلیات میں انکا کچھ فارسی کلام بھی موجود ہے۔ انکے مجموعے "شعلۂ طور" سے ایک فارسی غزل کے کچھ...
پرائے ہاتھوں میں جینے کی ہوس کیا؟
نشیمن ہی نہیں تو پھر قفس کیا؟
مکان و لا مکاں سے بھی گزر جا
فضائے شوق میں پروازِ خس کیا؟
کرم صیاد کے صد ہا ہیں ، پھر بھی
فراغِ خاطرِ اہلِ قفس کیا؟
محبت سر فروشی، جاں سے پیاری
محبت میں خیالِ پیش و پس کیا؟
اجل خود زندگی سے کانپتی ہے
اجل کی زندگی...
پیوست دل میں جب ترا تیرِ نظر ہوا
کس کس ادا سے شکوۂ دردِ جگر ہوا
کچھ داغِ دل سے تھی مجھے امید عشق میں
سو رفتہ رفتہ وہ بھی چراغِ سحر ہوا
تھم تھم کے اُن کے کان میں پہنچی صدائے دل
اُڑ اُڑ کے رنگِ چہرہ مرا نامہ بر ہوا
سینے میں پھر بھڑکنے لگی آتشِ فراق
دامن میں پھر معاملہء چشمِ تر...
کثرت میں بھی وحدت کا تماشا نظر آیا
جس رنگ میں دیکھا تجھے یکتا نظر آیا
جب اُس رخِ پرنور کا جلوہ نظر آیا
کعبہ نظر آیا نہ کلیسا نظر آیا
یہ حسن ، یہ شوخی ، یہ کرشمہ ، یہ ادائیں
دنیا نظر آئی مجھے ، تو کیا نظر آیا
اِک سر خوشیِ عشق ہے ، اک بے خودیِ شوق
آنکھوں کو ، خدا جانے ، مری کیا...
یہ مصرع کاش نقشِ ہر در و دیوار ہو جائے
جسے جینا ہو ، مرنے کے لئے تیار ہو جائے
وہی مے خوار ہے ، جو اس طرح مے خوار ہو جائے
کہ شیشہ توڑدے اور بے پئے سرشار ہوجائے
دلِ انساں اگر شائستہ اسرار ہوجائے
لبِ خاموشِ فطرت ہی لبِ گفتار ہوجائے
ہر اک بےکار سی ہستی بہ روئے کار ہوجائے
جنوں کی...
زندگی ہے مگر پرائی ہے
مرگِ غیرت! تری دہائی ہے
جب مسرت قریب آئی ہے
غم نے کیا کیا ہنسی اڑائی ہے
حسن نے جب شکست کھائی ہے
عشق کی جان پر بن آئی ہے
عشق کو زعمِ پارسائی ہے
حسنِ کافر! تری دہائی ہے
ہائے وہ سبزہء چمن کہ جسے
سایہء گل میں نیند آئی ہے
عشق ہے اس مقام پر کہ جہاں
زندگی نے...
ساقی کی ہر نگاہ پہ بل کھا کے پی گیا
لہروں سے کھیلتا ہوا‘ لہرا کے پی گیا
بے کیفیوں کے کیف سے گھبرا کے پی گیا
توبہ کو توبہ تاڑ کے‘ تھرا کے پی گیا
زاہد‘ یہ میری شوخیِ رندانہ دیکھنا!
رحمت کو باتوں باتوں میں بہلا کے پی گیا
سر مستیِ ازل مجھے جب یاد آ گئی
دنیائے اعتبار کو ٹھکرا کے پی گیا...
جہلِ خرد نے دن يہ دکھائے
گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے
ہائے وہ کيونکر دل بہلائے
غم بھی جس کو راس نہ آئے
ضد پر عشق اگر آ جائے
پانی چھڑکے‘ آگ لگائے
دل پہ کچھ ایسا وقت پڑا ہے
بھاگے لیکن راہ نہ پائے
کیسا مجاز اور کیسی حقیقت؟
اپنے ہی جلوے‘ اپنے ہی سائے
جھوٹی ہے ہر ايک مسرت
روح...
نہ راہزن، نہ کسی رہنما نے لوٹ لیا
ادائے عشق کو رسمِ وفا نے لوٹ لیا
نہ پوچھو شومئی تقدیرِ خانہ بربادی
جمالِ یار کہاں نقشِ پا نے لوٹ لیا
دل تباہ کی روداد، اور کیا کہئے
خود اپنے شہر کو فرماں روا نے لوٹ لیا
زباں خموش، نظر بیقرار، چہرہ فق
تجھے بھی کیا تری کافر ادا نے لوٹ لیا
نہ اب...