کچھ دن قبل انٹرنیٹ پہ ایک تصویر دیکھی، جس کو دیکھ کر کیفی اعظمی کی ایک مختصر نظم یاد آ گئی۔ دونوں پیشِ خدمت ہیں۔
پہلے تصویر اور پھر نظم
مشورے از کیفی اعظمی
پیری:۔
یہ آندھی، یہ طوفان، یہ تیز دھارے
کڑکتے تماشے، گرجتے نظارے
اندھیری فضا سانس لیتا سمندر
نہ ہمراہ مشعل، نہ گردوں پہ تارے
مسافر...
حُسن فانی ہے، جوانی کے فسانے تک ہے
پر یہ کمبخت محبت تو زمانے تک ہے
وہ ملے گا تو شناسائی دلوں تک ہو گی
اجنبیّت تو فقط سامنے آنے تک ہے
شاعری پیروں، فقیروں کا وظیفہ تھا کبھی
اب تو یہ کام فقط نام کمانے تک ہے
دشت میں پاؤں دھرا تھا کبھی وحشت کے بغیر
اب وہی ریت مِرے آئینہ خانے تک ہے
چاند گردُوں کو...