جون ایلیا کی غزلیں

  1. م

    جون ایلیا کبھی کبھی تو بہت یاد آنے لگتے ہو

    کبھی کبھی تو بہت یاد آنے لگتے ہو کہ رُوٹھے ہو کبھی اور منانے لگتے ہو گِلہ تو یہ ہے تم آتے نہیں کبھی لیکن جب آتے بھی ہو تو فوراً ہی جانے لگتے ہو یہ بات جونؔ تمہاری مذاق ہے کہ نہیں کہ جو بھی ہو اسے تم آزمانے لگتے ہو تمہاری شاعری کیا ہے بھلا، بھلا کیا ہے تم اپنے دل کی اُداسی کو گانے لگتے ہو...
  2. م

    جون ایلیا بات کوئی امید کی مجھ سے نہیں کہی گئی

    بات کوئی امید کی مجھ سے نہیں کہی گئی سو میرے خواب بھی گئے سو میری نیند بھی گئی دل کا تھا ایک مدعا جس نے تباہ کر دیا دل میں تھی ایک ہی تو بات، وہ جو فقط سہی گئی جانے کیا تلاش تھی جون میرے وجود میں جس کو میں ڈھونڈتا گیا جو مجھے ڈھونڈتی گئی ایک خوشی کا حال ہے خوش سخن کے درمیاں عزت شائقین...
  3. کاشف اختر

    جون ایلیا کتنے عیش سے رہتے ہوں گے، کتنے اتراتے ہوں گے.. غزل از جون ایلیا

    کتنے عیش سے رہتے ہوں گے کتنے اتراتے ہوں گے جانے کیسے لوگ وہ ہوں گے جو اس کو بھاتے ہوں گے شام ہوئے خوش باش یہاں کے میرے پاس آ جاتے ہیں میرے بجھنے کا نظارہ کرنے آ جاتے ہوں گے وہ جو نہ آنے والا ہے نا اس سے مجھ کو مطلب تھا آنے والوں سے کیا مطلب آتے ہیں آتے ہوں گے اس کی یاد کی باد صبا میں...
Top