جون ایلیا کی شاعری

  1. منیب فیض

    محبت ہوتے ہوتے، اک ندامت ہو گئی آخر (جون ایلیا)

    محبت ہوتے ہوتے، اک ندامت ہو گئی آخر ندامت ہوتے ہوتے، اک اذیت ہو گئی آخر عجب انداز سے طے مرحلے دل کے کیے ہم نے جو دل کی نازبرداری تھی، نفرت ہو گئی آخر بھلا معلوم کیا ہوگا اسے، اس کی جدائی میں ہمیں خود اپنے شکووں سے، شکایت ہو گئی آخر کمینے ہو گئے جذبے، ہوئے بدنام خواب اپنے کبھی اس سے، کبھی...
  2. حسن محمود جماعتی

    حالت حال کے سبب، حالت حال ہی گئی :: آواز حسن جماعتی

    حالت حال کے سبب، حالت حال ہی گئی شوق میں کچھ نہیں گیا، شوق کی زندگی گئی ایک ہی حادثہ تو ہے، اور وہ یہ کہ آج تک بات نہیں کہی گئی، بات نہیں سنی گئی اس کی امید ناز کا ہم سے یہ مان تھا کہ آپ عمر گزار دیجیے، عمر گزار دی گئی
  3. م

    جون ایلیا کبھی کبھی تو بہت یاد آنے لگتے ہو

    کبھی کبھی تو بہت یاد آنے لگتے ہو کہ رُوٹھے ہو کبھی اور منانے لگتے ہو گِلہ تو یہ ہے تم آتے نہیں کبھی لیکن جب آتے بھی ہو تو فوراً ہی جانے لگتے ہو یہ بات جونؔ تمہاری مذاق ہے کہ نہیں کہ جو بھی ہو اسے تم آزمانے لگتے ہو تمہاری شاعری کیا ہے بھلا، بھلا کیا ہے تم اپنے دل کی اُداسی کو گانے لگتے ہو...
  4. م

    جون ایلیا بات کوئی امید کی مجھ سے نہیں کہی گئی

    بات کوئی امید کی مجھ سے نہیں کہی گئی سو میرے خواب بھی گئے سو میری نیند بھی گئی دل کا تھا ایک مدعا جس نے تباہ کر دیا دل میں تھی ایک ہی تو بات، وہ جو فقط سہی گئی جانے کیا تلاش تھی جون میرے وجود میں جس کو میں ڈھونڈتا گیا جو مجھے ڈھونڈتی گئی ایک خوشی کا حال ہے خوش سخن کے درمیاں عزت شائقین...
  5. کاشف اختر

    جون ایلیا فقیہ و واعظ و مفتی پہ حرف گیر ہو کون؟ شہر آشوب ۔ جون ایلیا

    گزر گئے پسِ در کی اشارتوں کے وہ دن کہ رقص کرتے تھے مے خوار رنگ کھیلتے تھے نہ محتسب کی تھی پروا نہ شہرِ دار کی تھی ہم اہلِ دل سرِ بازار رنگ کھیلتے تھے غرورِ جبہ و دستار کا زمانہ ہے نشاطِ فکر و بساطِ ہنر ہوئی برباد فقیہ و مفتی و واعظ پہ حرف گیر ہو کون؟ یہ ہیں ملائکہ اور شہر جنتِ شداد ملازمانِ...
  6. کاشف اختر

    جون ایلیا وہ اک عجیب زلیخا ہے یعنی بے یوسف ۔ جون ایلیا

    جو حال خیز ہو دل کا وہ حال ہے بھی نہیں فغاں کہ اب وہ ملالِ ملال ہے بھی نہیں تُو آ کے بے سروکارانہ مار ڈال مجھے کہ تیغ تھی بھی نہیں اور ڈھال ہے بھی نہیں مرا زوال ہے اس کے کمال کا حاصل مرا زوال تو میرا زوال ہے بھی نہیں کیا تھا جو لبِ خونیں سے اس پہ میں نے سخن کمال تھا بھی نہیں اور کمال ہے بھی...
  7. کاشف اختر

    جون ایلیا کتنے عیش سے رہتے ہوں گے، کتنے اتراتے ہوں گے.. غزل از جون ایلیا

    کتنے عیش سے رہتے ہوں گے کتنے اتراتے ہوں گے جانے کیسے لوگ وہ ہوں گے جو اس کو بھاتے ہوں گے شام ہوئے خوش باش یہاں کے میرے پاس آ جاتے ہیں میرے بجھنے کا نظارہ کرنے آ جاتے ہوں گے وہ جو نہ آنے والا ہے نا اس سے مجھ کو مطلب تھا آنے والوں سے کیا مطلب آتے ہیں آتے ہوں گے اس کی یاد کی باد صبا میں...
Top