غزلِ
اوسط جعفری
جِنہیں صُبح تک تھا جلنا، سرِ شام بُجھ گئے ہیں
وہ چراغ کیا بُجھے ہیں، در و بام بُجھ گئے ہیں
ہُوا ظُلم جاتے جاتے، شبِ غم ٹھہر گئی ہے
جو سحر سے آ رہے تھے، وہ پیام بُجھ گئے ہیں
نہ رہا کوئی شناسا، کہ جو حال چال پُوچھے
پسِ پردہ تھے جو روشن، وہ سلام بُجھ گئے ہیں
ذرا آ کے دیکھے میری...
غزلِ
فرح جعفری
اک دولتِ یقین تھی جو، اب پاس بھی نہیں
لیکن یہاں کسی کو یہ احساس بھی نہیں
برسوں سے ہم کھڑےہیں اُسی آئینے کے پاس
وہ آئینہ جو چہرے کا ، عکاس بھی نہیں
رنج والم کی اِس پہ ہے تحریر جا بجا
یہ زندگی، جو صفحۂ قرطاس بھی نہیں
ہر چند ہم نے مانگیں دُعائیں بہار کی
حالانکہ ہم...