غزل
مولانا حسرتؔ موہانی
شُکرِالطاف نہیں، شکوۂ بیداد نہیں
کُچھ ہَمَیں تیری تمنّا کے سِوا یاد نہیں
گیسوئے دوست کی خوشبُو ہے دوعالَم کی مُراد
آہ! وہ نِکہتِ برباد، کہ برباد نہیں
محوِ گُل ہیں یہ عنادل، کہ چَمن میں گویا
خوف گُلچِیں کا نہیں، خطرۂ صیّاد نہیں
جان کردی تھی کسی نے تِرے قدموں پہ نِثار...
غزل
کیا کہیے آرزُوئے دِلِ مبُتِلا ہے کیا
جب یہ خبر بھی ہو، کہ وہ رنگیں اَدا ہے کیا
کافی ہیں میرے بعد پَشیمانیاں تِری
مَیں کُشتۂ وَفا ہُوں مِرا خُوں بَہا ہے کیا
وقتِ کَرَم نہ پُوچھے گا لُطفِ عمیمِ یار
رِندِ خراب حال ہے کیا، پارسا ہے کیا
دیکھو جِسے، ہے راہِ فَنا کی طرف رَواں
تیری محل سرا کا...
غزل
سرگرمِ ناز آپ کی شانِ وَفا ہے کیا
باقی ستم کا اور ابھی حوصلہ ہے کیا
آنکھیں تِری جو ہوشرُبائی میں ہیں فرو
اِن میں یہ سِحرکارئیِ رنگِ حنا ہے کیا
گر جوشِ آرزُو کی ہیں کیفیتیں یہی
مَیں بُھول جاؤں گا کہ مِرا مُدّعا ہے کیا
آتے ہیں وہ خیال میں کیوں میرے بار بار
عِشقِ خُدا نُما کی یہی اِبتدا ہے...
غزل
مولانا حسرتؔ موہانی
ہم بندگانِ درد پہ مشقِ جَفا ہے کیا
دِل جوئیِ وُفا کا یہی مُقتضا ہے کیا
محرُومیوں نے گھیر لِیا ہے خیال کو
اے عشقِ یار! تیری یہی اِنتہا ہے کیا
شوقِ لقائے یار کہاں ، میں حَزیں کہاں
اے جانِ بےقرار ! تجھے یہ ہُوا ہے کیا
ہو جائے گی کبھی نہ کبھی جان نذرِ یار
بیمارِ عِشق ہم...
غزل
یاد کر وہ دِن کہ تیرا کوئی سودائی نہ تھا
باوجُودِ حُسن تُو آگاہِ رعنائی نہ تھا
عِشقِ روزافزوں پہ اپنے مُجھ کو حیرانی نہ تھی
جلوۂ رنگیں پہ تجھ کو نازِ یکتائی نہ تھا
دِید کے قابل تھی میرے عِشق کی بھی سادگی !
جبکہ تیرا حُسن سرگرمِ خُودآرائی نہ تھا
کیا ہُوئے وہ دِن کہ محوِ آرزُو تھے حُسن...
غزل
مقرّر کچھ نہ کچھ اِس میں رقیبوں کی بھی سازش ہے
وہ بے پروا الٰہی مجھ پہ کیوں گرمِ نوازش ہے
پے مشق ِتغافل آپ نے مخصُوص ٹھہرایا
ہمیں یہ بات بھی مُنجملۂ اسبابِ نازش ہے
مِٹا دے خود ہمیں گر شِکوۂ غم مِٹ نہیں سکتا
جفائے یار سے یہ آخری اپنی گزارش ہے
کہاں ممکن کسی کو باریابی اُن کی...
غزل
اور بھی ہو گئے بیگانہ وہ، غفلت کرکے
آزمایا جو اُنھیں ، ضبطِ محبّت کرکے
دِل نے چھوڑا ہے، نہ چھوڑے تِرے مِلنے کا خیال
بارہا دیکھ لِیا ، ہم نے ملامت کرکے
دیکھنے آئے تھے وہ، اپنی محبّت کا اثر
کہنے کو یہ کہ، آئے ہیں عیادت کرنے
پستیِ حوصلۂ شوق کی اب ہے یہ صلاح
بیٹھ رہیے غَمِ ہجراں پہ قناعت...