غزل
اُس کے غم کو، غمِ ہستی تو مِرے دِل نہ بنا
زِیست مُشکل ہے اِسے اور بھی مُشکل نہ بنا
تُو بھی محدُود نہ ہو، مجھ کو بھی محدُود نہ کر
اپنے نقشِ کفِ پا کو مِری منزِل نہ بنا
اور بڑھ جائے گی وِیرانیِ دل جانِ جہاں !
میری خلوت گہہِ خاموش کو محفِل نہ بنا
دِل کے ہر کھیل میں ہوتا ہے بہت جاں کا...
غزلِ
نالۂ غم، شُعلہ اثر چاہیے
چاکِ دِل اب تا بہ جگر چاہیے
کِتنے مہ و نجْم ہُوئے نذرِ شب
اے غمِ دِل اب تو سَحر چاہیے
یُوں تو نہ ہوگا کبھی دِیدارِ دوست
اب تو کوئی راہِ دِگر چاہیے
منزِلیں ہیں زیرِ کفِ پا، مگر
ایک ذرا عزمِ سفر چاہیے
تشنگئ لب کا تقاضہ ہے اب
بادہ ہو یا زہر مگر چاہیے...