آب و سراب
تو یہ چہرہ ہے وہی، دیکھ کے جس کو اکثر
سیر چشمی کا ہُوا کرتا تھا احساس مجھے
تو یہ باتیں ہیں وہی، راز کی گرہیں تھیں کبھی
تو یہ وہ ہے، جو سمجھتی تھی بہت پاس مجھے
تو یہ آنکھیں ہیں وہی، بوسۂ لب کے ہنگام
بند ہو جاتی تھیں مندر کے کواڑوں کی طرح
تو یہ باہیں، مِری دِیوارِ بدن کا تھیں حصار...
غزل
میں تو چُپ تھا مگر اُس نے بھی سُنانے نہ دِیا
غمِ دُنیا کا کوئی ذکر تک آنے نہ دِیا
اُس کا زہرآبۂ پَیکر ہے مِری رگ رگ میں
اُس کی یادوں نے مگر ہاتھ لگانے نہ دِیا
اُس نے دُوری کی بھی حد کھینچ رکھی ہے گویا
کُچھ خیالات سے آگے مجھے جانے نہ دِیا
بادبان اپنے سفِینے کا ذرا سی لیتے
وقت اِتنا...