غزل
اِک خواب ِ دل آویز کی نِسبت سے مِلا کیا
جُز دَربَدَرِی، اُس دَرِ دَولت سے مِلا کیا
آشوبِ فراغت! تِرے مُجرم ، تِرے مجبوُر
کہہ بھی نہیں سکتے کہ فراغت سے مِلا کیا
اِک نغمہ کہ خود اپنے ہی آہنگ سے محجوب
اِک عُمر کہ پِندار ِ سماعت سے مِلا کیا
اِک نقش کہ خود اپنے ہی رنگوں...
غزل
کیا خزانہ تھا کہ چھوڑ آئے ہیں اغیار کے پاس
ایک بستی میں کسی شہرِ خوش آثار کے پاس
دِن نِکلتا ہے، تو لگتا ہے کہ جیسے سورج
صُبحِ روشن کی امانت ہو شبِ تار کے پاس
دیکھیے کُھلتے ہیں کب، انفس و آفاق کے بھید
ہم بھی جاتے تو ہیں اِک صاحبِ اَسرار کے پاس
خلقتِ شہر کو مُژدہ ہو کہ، اِس عہد...
غزلِ
اِفتخارعارِف
رنگ تھا، روشنی تھا، قامت تھا
جس پہ ہم مر مِٹے، قیامت تھا
خُوش جمالوں میں دُھوم تھی اپنی
نام اُس کا بھی وجہِ شُہرت تھا
پاسِ آوارگی ہمیں بھی بہت !
اُس کو بھی اعترافِ وحشت تھا
ہم بھی تکرار کے نہ تھے خُوگر
وہ بھی ناآشنائے حُجّت تھا
خواب تعبیر بَن کے آتے تھے
کیا عجب موسمِ...
غزل
عذابِ وحشتِ جاں کا صلہ نہ مانگے کوئی
نئے سفر کے لئے راستہ نہ مانگے کوئی
بلند ہاتھوں میں زنجیر ڈال دیتے ہیں
عجیب رسم چلی ہے دعا نہ مانگے کوئی
تمام شہر مکّرم بس ایک مجرم میں
سو میرے بعد مرا خوں بہا نہ مانگے کوئی
کوئی تو شہرِ تذبذب کے ساکنوں سے کہے
نہ ہو یقین تو پھر معجزہ نہ...
غزل
جُنوں کا رنگ بھی ہو شعلہ نمو کا بھی ہو
سکُوتِ شب میں اک انداز گفتگو کا بھی ہو
میں جس کو اپنی گواہی میں لے کے آیا ہوں
عجب نہیں کہ وہی آدمی عدو کا بھی ہو
وُہ جس کے چاک گریباں پہ تہمتیں ہیں بہت
اسی کے ہاتھ میں شاید ہنر رفو کا بھی ہو
وہ جس کے ڈوبتے ہی ناؤ ڈگمگانے لگی
کسے خبر...
غزل
حامی بھی نہ تھے منکرِ غالب بھی نہیں تھے
ہم اہلِ تذبذب کسی جانب بھی نہیں تھے
اس بار بھی دنیا نے ہدف ہم کو بنایا
اس بار تو ہم شہ کے مصاحب بھی نہیں تھے
بیچ آئے سرِ قریۂ زر جوہرِ پندار
جو دام ملے ایسے مناسب بھی نہیں تھے
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اُتارے ہیں جو...
قصہ ایک بسنت کا
پتنگیں لوٹنے والوں کو کیا معلوم کس کے ہاتھ کا مانجھا کھرا تھا اور کس کی
ڈور ہلکی تھی
اُنھیں اس سے غرض کیا پینچ پڑتے وقت کن ہاتھوں میں لرزہ آگیا تھا
اور کس کی کھینچ اچھی تھی؟
ہوا کس کی طرف تھی، کونسی پالی کی بیری تھی؟
پتنگیں لُوٹنے والوں کو کیا معلوم؟
اُنھیں تو بس بسنت...
غزل
کہاں کے نام و نسب علم کیا فضیلت کیا
جہانِ رزق میں توقیرِ اہلِ حاجت کیا
شِکم کی آگ لئے پھر رہی ہے شہر بہ شہر
سگِ زمانہ ہیں ہم کیا ہماری ہجرت کیا
دمشقِ مصلحت و کوچۂ نفاق کے بیچ
فغانِ قافلۂ بے نوا کی قیمت کیا
مآلِ عزت ساداتِ عشق دیکھ کے ہم
بدل گئے تو بدلنے پہ اتنی حیرت کیا...
غزل
حریمِ لفظ میں کس درجہ بے ادب نکلا
جسے نجیب سمجھتے تھے کم نسب نکلا
سپاہِ شام کے نیزے پہ آفتا ب کا سر
کس اہتمام سے پروردگارِ شب نکلا
ہماری گرمیِ گفتار بھی رہی بے سود
کسی کی چپ کا بھی مطلب عجب عجب نکلا
بہم ہوئے بھی مگر دل کی وحشتیں نہ گئیں
وصال میں بھی دلوں کا غبار کب نکلا...
غزل
کوئی جنوں کوئی سودا نہ سر میں رکھا جائے
بس ایک رزق کا منظر نظر میں رکھا جائے
ہوا بھی ہوگئی میثاقِ تیرگی میں فریق
کوئی چراغ نہ اب رہگزر میں رکھا جائے
اُسی کو بات نہ پہنچے جسے پہنچنی ہو
یہ التزام بھی عرضِ ہنر میں رکھا جائے
نہ جانے کون سے ترکش کے تیر کب چل جائیں
نشانِ مہر کمانِ...
مکالمہ
"ہوا کے پردے میں کون ہے جو چراغ کی لو سے کھیلتا ہے
کوئی تو ہوگا
جو خلعتِ انتساب پہنا کے وقت کی رَو سے کھیلتا ہے
کوئی تو ہوگا
حجاب کو رمزِ نور کہتا ہے اور پَرتو سے کھیلتا ہے
کوئی تو ہو گا"
"کوئی نہیں ہے
کہیں نہیں ہے
یہ خوش یقینوں کے ، خوش گمانوں کے واہمے ہیں جو ہر سوالی سے...