غزلِ
مجید امجد
اب کے تمھارے دیس کا یہ روپ نیارا تھا
بِکھرا ہُوا ہَواؤں میں سایا تمھارا تھا
گُم سُم کھڑے ہیں اُونچی فصِیلوں کے کنکرے
کوئی صدا نہیں! مجھے کِس نے پُکارا تھا
رات آسماں پہ چاند کی منڈلی میں کون تھا
تم تھے کہ اِک سِتار بجاتا سِتارہ تھا
اُن دُورِیوں میں قُرب کا جادُو عذاب تھا...