خالد علیم
غزل
نواحِ شام کی اے سرد خو ہوائے فراغ
جلا رہا ہوں میں اپنے لہو سے دل کا چراغ
اسیرِ حلقہء مہتاب رہنا چاہتا ہوں
یہ رات ڈھونڈ نہ لائے مری سحر کا سراغ
ستارے آنکھ کے منظر پہ کم ٹھہرتے ہیں
ہمارے ہم سخنوں کا ہے آسماں پہ دماغ
کچھ اور ڈالیے ہم تشنگاں کو ضبط کی خو
درک نہ جائے...
خالد علیم
غزل
حلقہء دل سے نکل‘ وقت کی فرہنگ میں کھل
اے مرے خواب! کسی عکسِ صدا رنگ میں کھل
اے مرے رہروِ جاں! کس نے کہا تھا تجھ کو
آنکھ سے دل میں اُتر‘ درد کے آہنگ میں کھل
اے مری خامشیِ کرب نما خود سے نکل
تجھ کو کھلنا ہے تو دشمن کے دلِ تنگ میں کھل
اے لہو ہوتی ہوئی موجِ غمِ ہجر...
خالد علیم
ہیچ ہے
(مولانا حالی کے ایک شعر پر تضمین)
جس طرح اک صید‘ صیادوں کے آگے ہیچ ہے
شاعری میری سب اُستادوں کے آگے ہیچ ہے
جانتا ہوں میں کہ یہ میری دکانِ شیشہ گر
وقت کے آئینہ آبادوں کے آگے ہیچ ہے
یہ مرا فکرِ سخن آثار‘ اندازِ جدید
فکر و فن کی کہنہ بنیادوں کے آگے ہیچ ہے
سنگ زارِ فن...
خالد علیم
ایک آشوبیہ
(بارگاہِ خدا میں)
تجھ سے میرے خدا کہوں کیا
حالِ دلِ مبتلا کہوں کیا
جس حال میں ہوں، تجھے خبر ہے
بندہ ہوں میں ترا، کہوں کیا
میں ایک حصارِ عقل میں ہوں
تو سوچ سے ماورا، کہوں کیا
آتی ہے صدا پرندگاں کی
دیتی ہے ترا پتا، کہوں کیا
میں عجز سرشت، سر بہ خم ہوں
ہے...
غزل
ترے لیے کبھی وحشت گزیدہ ہم ہی نہ تھے
وہ دشت بھی تھا، گریباں دریدہ ہم ہی نہ تھے
لُٹے پٹے ہوئے اُن راستوں سے آتے ہوئے
یہ سب زمین تھی، آفت رسیدہ ہم ہی نہ تھے
ہمارے ساتھ کِھلے، ہم پہ مسکرانے لگے
تھے تم بھی ایک گلِ نودمیدہ، ہم ہی نہ تھے
تم ایک خواب ہوئے اور بن گئے مہتاب
فلک کی...
غزل
ایک مضمون تو کیا‘ نُطق وبیاں تک لے جائیں
کاٹ کر اہلِ سخن میری زباں تک لے جائیں
کبھی گزرا ہی نہ ہو جیسے گزرگاہ سے دل
لوگ آئیں‘ مرے قدموں کے نشاں تک لے جائیں
تجھ پہ کُھل جائے گا خوش خوابیِ جاں کا مفہوم
آ تجھے رہ گزرِ دل زدَگاں تک لے جائیں
ایک دریائے رواں آنکھ کے اُس پار بھی ہے...
غزل
سُو بہ سو وحشتِ صحرا نہیں دیکھی جاتی
یہی دُنیا ہے تو دُنیا نہیں دیکھی جاتی
عشق ہوتا ہے بہرحال عجب حال میں گم
اس میں پیمائشِ فردا نہیں دیکھی جاتی
دیکھنا یہ ہے کہ اپنوں کا تقاضا کیا ہے
وسعتِ ظرفِ تقاضا نہیں دیکھی جاتی
جب سے دیکھا ہے تجھے آئنۂ دُنیا میں
صورتِ آئنہ تنہا نہیں...
غزل
کم سہی‘ ہاں مجھے جینے کا گماں تھا پہلے
اب جو دھڑ کا سا ہے دل کو‘ وہ کہاں تھا پہلے
سُنتے آئے ہیں کہ دیوار تھی دیوار کے ساتھ
ہر مکاں دُور تلک ایک مکاں تھا پہلے
ایک آواز تھی اور دل میں اُتر جاتی تھی
قریہ و کو میں کہاں شورِ اذاں تھا پہلے
ایک در کھلتا تھا‘ در کھلتے چلے جاتے تھے...
غزل
زادہء ہجر پر ہزار دامنِ جاں کشادہ تھا
رات بہت طویل تھی، درد بہت زیادہ تھا
دونوں کی ایک قدر تھی اور تھی مشترک بہت
حُسن بھی خود نہاد تھا، عشق بھی بے ارادہ تھا
ایک لباسِ مفلسی، ایک فریبِ دل لگی
ایک تھا میرا پیرہن، ایک ترا لبادہ تھا
وقت کی اپنی چال تھی اور مجھے خبر نہ تھی
رات کی...
غزل
’’صدائے گریۂ ہمسایگاں ‘‘ سُنی کم ہے
تو اصل یہ ہے کہ سینوں میں روشنی کم ہے
بلا کے تیز قدم تھے ہمارے ناقہ سوار
مگر ہماری ہی کچھ اس پہ آگہی کم ہے
سو یہ نہیں کہ ہمیں رفتگاں سے اُنس نہیں
سو بات یہ کہ ہماری بھی زندگی کم ہے
تمھارے پیشِ نظر ہم نہیں ‘ نہیں ممکن
ہمیں ہی وقت کی...