غزل
دِیدہ دلیری سب سے، کہ اُس کو بُھلادِیا
اَوروں نے جب کہا کبھی، مجھ کو رُلا دِیا
جو روز بڑھ رہا تھا بہر طَور پانے کا!
جذبہ وہ دِل کا ہم نے بالآخر سُلادیا
تردِید و خوش گمانی کو باقی رہا نہ کُچھ
ہر بات کا جواب کُچھ ایسا تُلا دِیا
تشہیر میں کسر کوئی قاصِد نے چھوڑی کب!
خط میرے نام لکھ کے جب...
غزل
طَلَب تھی جِس کی، وہ صُورت مِلی یہاں بھی نہیں
مُدافعت کوغموں کی مَیں وہ جَواں بھی نہیں
بَدیسی زِیست کو حاصِل مِزاج داں بھی نہیں
دروغ گوئی ہو، کہہ دُوں جو رائیگاں بھی نہیں
ثباتِ دِل کو ہی پُہنچے تھے ہم وطن سے یہاں
کہیں جو راست، تو حاصِل ہُوا یہاں بھی نہیں
غموں کی دُھوپ سے بچ لیں کِس ایک...
غزل
ضرُور پُہنچیں گے منزل پہ کوئی راہ تو ہو
جَتن کو اپنی نظر میں ذرا سی چاہ تو ہو
قیاس و خوف کی تادِیب و گوشمالی کو
شُنِید و گُفت نہ جو روز، گاہ گاہ تو ہو
یُوں مُعتَبر نہیں اِلزامِ بیوفائی کُچھ
دِل و نَظر میں تسلّی کو اِک گواہ تو ہو
سِسک کے جینے سے بہتر مُفارقت ہونَصِیب!
سِتم سے اپنوں کے...
غزل
وہ سُکُوت، اپنے میں جو شور دَبا دیتے ہیں
جُوں ہی موقع مِلے طُوفان اُٹھا دیتے ہیں
خواہِشیں دِل کی اِسی ڈر سے دَبا دیتے ہیں
پیار کرنے پہ یہاں لوگ سَزا دیتے ہیں
چارَہ گر طبع کی بِدعَت کو جِلا دیتے ہیں
ٹوٹکا روز کوئی لا کے نیا دیتے ہیں
آشنا کم لَطِیف اِحساسِ محبّت سے نہیں
لیکن اسباب تماشہ...
غزل
دِیدہ دلیری سب سے، کہ اُس کو بُھلادِیا
اَوروں نے جب کہا کبھی، مجھ کو رُلا دِیا
کُچھ روز بڑھ رہا تھا مُقابل جو لانے کو!
جذبہ وہ دِل کا مَیں نے تَھپک کر سُلادِیا
تصدیقِ بدگمانی کو باقی رہا نہ کُچھ
ہر بات کا جواب جب اُس نے تُلا دِیا
تشہیر میں کسر کوئی قاصِد نے چھوڑی کب
خط میرے نام لکھ کے جب...
غزل
دُکھ کہاں مجھ کو کہ غم تیرا سزا دیتا ہے
ہاں مگر اِس کا، کہ سب حال بتا دیتا ہے
دِن گُزارے ہیں سَرِ چاکِ زمانہ، لیکن
یہ بھی ہر شام وہی شکل بنا دیتا ہے
رات ہوتے ہی کوئی یاد کا خوش کُن لمحہ !
نیند آنکھوں سے، سُکوں دِل سے مِٹا دیتا ہے
ذہن بے خوابئ آنکھوں کا سہارا پا کر
کیا نہ...
غزل
رکھّا ہے دل میں تجھ کو چُپھے راز کی طرح
دھڑکن بتا نہ دے کہ ہُوئی ساز کی طرح
تیرے خیال سے ہے بہار اب خِزاں کی رُت
خاموشی بھی چہک تِری آواز کی طرح
یوں کِھلکِھلانا اُس کا ہے اِس بات پر ثبوت
باقی نہ سرد مہری ہے آغاز کی طرح
پُھولے نہیں سماتا ہے قربت سے تیری دِل
پہلو میں توُ، اِسے...
غزلِ
بات چلتی نظر نہیں آتی
کچھ بھی بنتی نظر نہیں آتی
رنگِ اُلفت بَرنگِ قِسمت ہی
کُچھ چَمکتی نظر نہیں آتی
جس پہ تکیہ تھا اب وہی مجھ کو
میری بنتی نظر نہیں آتی
عمر بھر کی نہ ہو یہ تنہائی
پَل کو ہٹتی نظر نہیں آتی
کھوچُکا میں نظر کی شادابی
راہ چلتی نظر نہیں آتی
شوخ اُس شوخ کی...
غزل
آ ہ رُکتی نظر نہیں آتی
آنکھ لگتی نظر نہیں آتی
یاد ٹلتی نظر نہیں آتی
رات ڈھلتی نظر نہیں آتی
کیا کِرن کی کوئی اُمید بندھے
دُھند چَھٹتی نظر نہیں آتی
گو تصوّر میں ہے رُخِ زیبا
یاس ہٹتی نظر نہیں آتی
یُوں گُھٹن سی ہے اِضطراب سے آج
سانس چلتی نظر نہیں آتی
کیا تصوّر میں کچھ تغیّر ہو...
یا خُدا کچھ آج ایسا رحم مجھ پہ کرجائیں!
شفیق خلش
یا خُدا کچھ آج ایسا رحم مجھ پہ کر جائیں
اپنے اِک تبسّم سے زخْم میرے بھرجائیں
ہو کوئی کرشمہ اب، جس کی مہربانی سے
ساتھ اپنے وہ ہولیں، یا ہم اُن کے گھرجائیں
دُور ہو سیاہی بھی وقت کی یہ لائی سی
اپنی خوش نوائی سے روشنی جو کرجائیں
روشنی مُدام...
غزلِ
شفیق خلش
دِل میں ہجرت کے نہیں آج تو کل ہوں گے خلش
زخم ہوں گے کبھی لمحے، کئی پَل ہوں گے خلش
بے اثر تیرے کِیے سارے عمل، ہوں گے خلش
جو نہیں آج، یہ اندیشہ ہے کل ہوں گے خلش
زندگی بھر کے لئے روگ سا بن جائیں گے!
گرنہ فوراّ ہی خوش اسلوبی سے حل ہوں گے خلش
کارگر اُن پہ عملِ راست بھی ہوگا...
غزل
شفیق خلش
دی خبر جب بھی اُنھیں اپنے وہاں آنے کی
راہیں مسدُود ہُوئیں میرے وہاں جانے کی
اور کُچھ پانے کی دِل کو نہیں خواہش کوئی
نِکلے بس راہ کوئی میرے وہاں جانے کی
وجہ کیا خاک بتائیں تمھیں کھُل کر اِس کی
کوئی تدبیر چلی ہی نہیں دِیوانے کی
میری قسمت میں کہاں یار سے جاکر مِلنا
کوشِشیں...
غزل
شفیق خلش
مناظر حَسِیں ہیں جو راہوں میں میری
تمہیں ڈھونڈتے ہیں وہ بانہوں میں میری
اِنہیں کیا خبر مجھ میں رَچ سے گئے ہو
بچھڑ کر بھی مجھ سے، ہو آہوں میں میری
عجب بیخُودی آپ ہی آپ چھائے
تِرا نام آئے جو آہوں میں میری
ہر اِک سُو ہے رونق خیالوں سے تیرے
ابھی بھی مہک تیری بانہوں میں میری...
غزل
شفیق خلش
مجھ سے آنکھیں لڑا رہا ہے کوئی
میرے دِل میں سما رہا ہی کوئی
ہے تِری طرح روز راہوں میں
مجھ سے تجھ کو چُھڑا رہا ہے کوئی
پھر ہُوئے ہیں قدم یہ من من کے
پاس اپنے بُلا رہا ہے کوئی
نِکلوں ہر راہ سے اُسی کی طرف
راستے وہ بتا رہا ہے کوئی
کیا نِکل جاؤں عہدِ ماضی سے !
یادِ بچپن دِلا...
غزل
شفیق خلش
بہت سے لوگ تھے باتیں جہاں ہماری تھیں
تمھارے وصف تھے رُسوائیاں ہماری تھیں
نہیں تھا کوئی بھی، دیتا جو ساتھ محفل میں
تمھاری یاد تھی، تنہائیاں ہماری تھیں
عجب تماشا تھا، ہرآنکھ کا وہ مرکز تھا
وجود اُس کا تھا، پرچھائیاں ہماری تھیں
تباہ ہو نہ سکے، یہ کمال تھا اپنا
تمھارے خواب تھے...
غزل
شفیق خلش
یادوں سے سیلِ غم کو ہیں آنکھوں میں روکے ہم
کب بھُولے، زندگی سے محبّت کے بوسے ہم
دیکھیں برستی آگ لبِ نغمہ گو سے ہم
حیراں ہیں گفتگو کو مِلی طرزِ نو سے ہم
سب دوست، آشنا جو تھے ، تاتاری بن گئے
آئے وطن، تو بیٹھے ہیں محبوس ہوکے ہم
اپنی روایتوں کا ، ہمیں پاس کب رہا !
کرتے شُمار...