نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
کلام:فیض احمد فیض
آواز: عابدہ پروین
نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی
نہ تن میں خون فراہم نہ اشک آنکھوں میں
نمازِ شوق تو واجب ہے بے وضو ہی سہی
کسی طرح تو جمے بزم میکدے والو
نہیں جو بادہ و ساغر تو ہاؤ ہو ہی سہی
گر انتظار...
غزلِ
شفیق خلش
ہوکر رہے ہیں جب مِرے ہر کام مختلف
ہوجائیں روز و شب کے بھی ایّام مختلف
شام و سحر یہ دیں مجھے دُشنام مختلف
کیا لوگ ہیں، کہ روز ہی اِلزام مختلف
پہلےتھیں اِک جَھلک کی، یا مِلنے کی مِنّتیں
آتے ہیں اُن کے اب مجھے پیغام مختلف
دِل پھر بضد ہے لوٹ کے جانے پہ گھر وہی
شاید لِکھا ہے...
غزلِ
شفیق خلش
اُمید تھی تو، اگرچہ نہ تھی عیاں بالکل
ہُوئی کِرن وہی دِل کی ہے اب نہاں بالکل
کِھلے نہ پُھول ہیں دِل میں، نظردُھواں بالکل
بہار آئی بھی بن کر خَلِش، خِزاں بالکل
کہا ہے دِل کی تسلّی کو بارہا خود سے
ہم اُن کو بُھول چُکے ہیں، مگرکہاں بالکل
جو اُٹھتے دستِ زلیخا ہمارے دامن پر
نہ...
غزلِ
شفیق خلش
ہمارے من میں بسے جو بھی روگ ہوتے ہیں
شریر کے کسی بندھن کا سوگ ہوتے ہیں
جو لاگ، بیر کسی سے بھی کُچھ نہیں رکھتے
وہی تو دہر میں سب سے نِروگ ہوتے ہیں
بُرا، بُرے کو کسی دھرم کا بنا دینا
بَھلے بُرے تو ہراِک میں ہی لوگ ہوتے ہیں
پریمیوں کے محبّت میں ڈوبے من پہ کبھی
دُکھوں کے...
غزلِ
شفیق خلش
نہ مثلِ دشت، نہ مُمکن کسی سماں کی طرح
نجانے گھر کی یہ حالت ہُوئی کہاں کی طرح
کریں وہ ذکر ہمارا تو داستاں کی طرح
بتائیں سنگِ در اپنا اِک آستاں کی طرح
کسی کی بات کی پروا، نہ اِلتجا کا اثر
فقیہہ شہر بھی بالکل ہے آسماں کی طرح
وفورِ شوق وہ پہلا، نہ حوصلہ دِل کا !
ورُود غم...
غزلِ
اکبر الٰہ آبادی
سمجھے وہی اِس کو جو ہو دِیوانہ کسی کا
اکبر، یہ غزل میری ہے افسانہ کسی کا
گر شیخ و برہمن سُنیں افسانہ کسی کا
معبد نہ رہیں کعبہ و بُتخانہ کسی کا
اﷲ نے دی ہے جو تمھیں چاند سی صُورت
روشن بھی کرو جا کے سیہ خانہ کسی کا
اشک آنکھوں میں آ جائیں عِوضِ نیند کے صاحب
ایسا بھی...
غزل
شفیق خلش
اُن کی ہم لعْن کبھی طَعْن سے ہی پھرتے تھے
ہم کب آواز سُنے بِن بھی، کبھی پھرتے تھے
لے مُصیبت وہ محبّت میں کڑی پھرتے تھے
صبح نِکلے پہ اندھیرے کی گھڑی پھرتے تھے
اب اُسی شہر کے ہرگھر کو میں زِنداں دیکھوں !
جس کے کوچوں میں غم آزاد کبھی پھرتے تھے
دیکھ کر جن پہ غزالوں کو بھی...
جھگڑا دانے پانی کا ہے، دام و قفس کی بات نہیں
اپنے بس کی بات نہیں، صیّاد کے بس کی بات نہیں
جان سے پیارے یار ہمارے قیدِ وفا سے چھوٹ گئے
سارے رشتے ٹوٹ گئے، اک تارِ نفس کی بات نہیں
تیرا پھولوں کا بستر بھی راہ گزارِ سیل میں ہے
آقا، اب یہ بندے ہی کے خار و خس کی بات نہیں
دونوں ہجر میں رو دیتے ہیں،...
پری کا سراپا
خُوں ریز کرشمہ، ناز و ستم، غمزوں کی جھُکاوٹ ویسی ہے
مژگاں کی سناں، نظروں کی انی، ابرو کی کھِچاوٹ ویسی ہے
قتّال نگہ اور ڈشٹ غضب، آنکھوں کی لَگاوٹ ویسی ہے
پلکوں کی جھَپک، پُتلی کی پھِرت، سُرمے کی گھُلاوٹ ویسی ہے
عیّار نظر، مکّار ادا، تیوری کی چَڑھاوٹ ویسی ہے
بے درد، ستمگر، بے پروا،...
دنیا میں ہوں، دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں، خریدار نہیں ہوں
زندہ ہوں مگر زیست کی لذت نہیں باقی
ہر چند کہ ہوں ہوش میں، ہشیار نہیں ہوں
اس خانۂ ہستی سے گزر جاؤں گا بے لوث
سایہ ہوں فقط ، نقش بہ دیوار نہیں ہوں
وہ گُل ہوں، خزاں نے جسے برباد کیا ہے
الجھوں کسی دامن سے، میں وہ خار...
ہم سے مستی میں بھی خُم کا نہ گلو ٹوٹ گیا
تجھ سے پر ساقیِ کم ظرف! سبو ٹوٹ گیا
شیخ صاحب کی نمازِ سحَری کو ہے سلام
حسنِ نیت سے مصلّے پہ وضو ٹوٹ گیا
پیچ و تاب اس دلِ صد چاک نے کھایا جو کوئی
دستِ شانہ سے تری زلف کا مُو ٹوٹ گیا
دیکھ کر کیوں کہ نہ ہو دیدۂ سوزاں حیراں
پیرہن کا مرے ہر تارِ رفو ٹوٹ...
غزل 1
رکھ پاؤں سرِ گورِ غریبان سمجھ کر
چلتا ہے زمیں پر ہر اک انسان سمجھ کر
ہشیار دِلا رہیو کہ دکھلا کے وہ زلفیں
لیتا ہے تجھے پہنچے میں نادان سمجھ کر
سرکا ہے دوپٹا رخِ مہ وَش پہ سحر کو
گردوں پہ نکل مبرِ درخشان سمجھ کر
لایا ہوں تری نذر کو لختِ جگر و اشک
رکھ دستِ مژہ پر دُرِ مرجان سمجھ کر...
شاہ نصیرؔ کو مشکل اور ادک زمینوں اور قافیوں میں شعر کہنے پر کمال حاصل تھا۔ مشکل زمین میں ان کی ایک غزل
میں ضعف سے جوں نقشِ قدم اٹھ نہیں سکتا
بیٹھا ہوں سرِ خاک پہ جم، اٹھ نہیں سکتا
اے اشکِ رواں! ساتھ لے اب آہِ جگر کو
عاشق کہیں بے فوج و علم اٹھ نہیں سکتا
سقفِ فلکِ کہنہ میں کیا خاک لگاؤں
اے...
بے جرم و خطا یار نہ کر چشم نمائی، تیوری کو چڑھا کر
اور رنجشِ بے جا سے نہ کر صاف لڑائی، منہ سرخ بنا کر
اس حور کی کب ہم سے ہوئی عہدہ برائی، اتنی نہ جفا کر
کرتا ہوں ترے ہجر میں اے شوخ پری زاد، میں نالہ و فریاد
دیتا نہیں خاطر سے تری اے ستم ایجاد، جب کوئی مری داد
پھر ہار کے دیتا ہوں میں تیری ہی...
اسی زمین میں حضرت امیر مینائی کی ایک غزل "تند مے اور ایسے کمسن کے لیے" ہم نے کچھ عرصہ قبل ارسال کی تھی۔ آج حضرت داغ دہلوی کی غزل ملاحظہ فرمائیں:
تم نے بدلے ہم سے گن گن کے لیے
ہم نے کیا چاہاتھا اس دن کے لیے
کچھ نرالا ہے جوانی کا بناؤ
شوخیاں زیور ہیں اس سن کے لیے
وصل میں تنگ آ کے وہ کہنے لگے...
بزمِ دشمن میں نہ کھلنا گلِ تر کی صورت
جاؤ بجلی کی طرح آؤ نظر کی صورت
نہ مٹانے سے مٹی فتنہ و شر کی صورت
نظر آتی نہیں اب کوئی گذر کی صورت
سوچ لے پہلے ہی تو نفع و ضرر کی صورت
نامہ بر تجھ کو بھلا دیں گے وہ گھر کی صورت
کیا خبر کیا ہوئی فریاد و اثر کی صورت
کہ ادھر کب نظر آتی ہے ادھر کی صورت...