دِل مُبتلائے حسرتِ دِیدار ہی تو ہے
فُرصت وَبا کے دَم سے یہ بیکار ہی تو ہے
کب دِل کو اِنحرافِ روابِط تھا یُوں قبُول
ہر وقت ذکرِ مرگ سے بیزار ہی تو ہے
بندہ وَبا سے، گھر رہا محفوظ ہے ضرور
لیکن، تمھارے ہجر میں بیمار ہی تو ہے
منزل کی دسترس میں کوئی سد نہیں، مگر
ہر پیش و پس، بہ مُمکنہ رفتار ہی تو...
دِل مُبتلائے حسرتِ دِیدار ہی تو ہے
فُرصت وَبا کے دَم سے یہ بیکار ہی تو ہے
کب دِل کو اِنحرافِ روابِط تھا یُوں قبُول
ہر وقت ذکرِ مرگ سے بیزار ہی تو ہے
بندہ وَبا سے، گھر رہا محفوظ ہے ضرور
لیکن، تمھارے ہجر میں بیمار ہی تو ہے
منزل کی دسترس میں کوئی سد نہیں، مگر
ہر پیش و پس، بہ مُمکنہ رفتار ہی تو...
غزل
سِراؔج اورنگ آبادی
جس کو مزا لگا ہے تِرے لب کی بات کا
ہرگز نہیں ہے ذَوق اُسے پِھر نبات کا
دیکھے سے اُن لبوں کے جسے عُمرِ خضر ہے
پیاسا نہیں ہے چشمۂ آبِ حیات کا
اے شوخ! بزمِ ہجر میں روشن ہے شمعِ آہ
قصّہ نہ پُوچھ مجھ سے جُدائی کی رات کا
یا رب! طلب ہے داغِ محبّت کی مُہر کی
مُدّت سے...
ہو چکا وعظ کا اثر واعظ
اب تو رندوں سے درگزر واعظ
صبح دم ہم سے تو نہ کر تکرار
ہے ہمیں پہلے دردِ سر واعظ
بزمِ رنداں میں ہو اگر شامل
پھر تجھے کچھ نہیں خطر واعظ
وعظ اپنا یہ بھول جائے تو
آوے گر یار سیم بر واعظ
ہے یہ مرغِ سحر سے بھی فائق
صبح اٹھتا ہے پیشتر واعظ
مسجد و کعبہ میں تو پھرتا ہے
کوئے...
غزلِ
خواجہ حیدرعلی آتش
ہوتا ہے سوزِ عِشق سے جل جل کے دِل تمام
کرتی ہے رُوح، مرحلۂ آب و گِل تمام
حقا کے عِشق رکھتے ہیں تجھ سے حَسینِ دہر
دَم بھرتے ہیں تِرا بُتِ چین و چگِل تمام
ٹپکاتے زخمِ ہجر پر اے ترک ، کیا کریں
خالی ہیں تیل سے تِرے، چہرے کے تِل تمام
دیکھا ہے جب تجھے عرق آ آ گیا ہے...
غزلِ
شفیق خلش
مجھ سے کیوں بدگُمان ہے پیارے
تجھ پہ صدقے یہ جان ہے پیارے
ہلکی لرزِش سے ٹُوٹ جاتا ہے
دِل وہ کچّا مکان ہے پیارے
میں ہی کیوں موردِ نِشانہ یہاں
مہرباں آسمان ہے پیارے
کب اِشارہ ہو سب اُلٹنے کا
مُنتظر پاسبان ہے پیارے
کیوں نہ جمہوریت یہاں پَھلتی
اِک عجب داستان ہے پیارے
چور...
کچھ موجِ ہوا پیچاں، اے میر! نظر آئی
شاید کہ بہار آئی، زنجیر نظر آئی
دلّی کے نہ تھے کُوچے، اوراقِ مصوّر تھے
جو شکل نظر آئی، تصویر نظر آئی
مغرور بہت تھے ہم، آنسو کی سرایت پر
سو صبح کے ہونے کو تاثیر نظر آئی
گل بار کرے ہے گا اسبابِ سفر شاید
غنچے کی طرح بلبل دل گیر نظر آئی
اس کی تو دل آزاری بے...
جھگڑا دانے پانی کا ہے، دام و قفس کی بات نہیں
اپنے بس کی بات نہیں، صیّاد کے بس کی بات نہیں
جان سے پیارے یار ہمارے قیدِ وفا سے چھوٹ گئے
سارے رشتے ٹوٹ گئے، اک تارِ نفس کی بات نہیں
تیرا پھولوں کا بستر بھی راہ گزارِ سیل میں ہے
آقا، اب یہ بندے ہی کے خار و خس کی بات نہیں
دونوں ہجر میں رو دیتے ہیں،...
غزل
(نواب حیدر یار جنگ بہادر علامہ علی حیدر طباطبائی نظم)
ساقیا خالی نہ جائے ابر یہ آیا ہُوا
ہورہے ہیں سرخ شیشے، دل ہے للچایا ہُوا
داغ دل چمکا جو اس کے طالب دیدار کا
جھلملاتا ہے چراغِ طور شرمایا ہُوا
عاشقوں کو ڈھونڈتے پھرتے ہو کیا محشر میں بھی
دھوپ میں پھرنے سے ہے کچھ رنگ سونلایا ہُوا
دل بھی...
سید شہزاد ناصر صاحب نے گلشن آرا سید کی آواز میں "موسیقی کی دنیا" میں یہ غزل شاملِ محفل کی تو ہمیں معلوم ہوا کہ ابھی تک "پسندیدہ کلام کے زمرے میں یہ خوبصورت موجود ہی نہیں۔ سو استاد قمر جلالوی کی یہ غزل سید شہزاد ناصر صاحب کی محبتوں کی نذر:
مریضِ محبت انھی کا فسانہ سناتا رہا دم نکلتے نکلتے
مگر ذکر...
مقدور نہیں اس کی تجلّی کے بیاں کا
جوں شمع سراپا ہو اگر صرف زباں کا
پردے کو تعیّن کے درِ دل سے اٹھا دے
کھلتا ہے ابھی پل میں طلسماتِ جہاں کا
ٹک دیکھ صنم خانہء عشق آن کے اے شیخ
جوں شمعِ حرم رنگ جھمکتا ہے بتاں کا
اس گلشنِ ہستی میں عجب دید ہے، لیکن
جب چشم کھلے گُل کی تو موسم ہوں خزاں کا
دکھلائیے...
مفت آبروئے زاہدِ علّامہ لے گیا
اِک مُغ بچہ اتار کے عمّامہ لے گیا
داغِ فراق و حسرتِ وصل، آرزوئے شوق
میں ساتھ زیرِ خاک بھی ہنگامہ لے گیا
پہنچا نہ پہنچا، آہ گیا، سو گیا غریب
وہ مرغِ نامہ بر جو مرا نامہ لے گیا
اس راہ زن کے ڈھنگوں سے دیوے خدا پناہ
اِک مرتبہ جو میر کا جی جامہ لے گیا
(میر تقی میر)
جانتا ہوں کہ مرا دل مرے پہلو میں نہیں
پھر کہاں ہے جو ترے حلقۂ گیسو میں نہیں
ایک تم ہو تمہارے ہیں پرائے دل بھی
ایک میں ہوں کہ مرا دل مرے قابو میں نہیں
دور صیّاد، چمن پاس، قفس سے باہر
ہائے وہ طاقتِ پرواز کہ بازو میں نہیں
دیکھتے ہیں تمہیں جاتے ہوئے اور جیتے ہیں
تم بھی قابو میں نہیں، موت بھی...
fani badayuni
urdupoetry
اردو شاعری
اردو کلاسیکیشاعری
شوکت علی خان فانی بدایونی
طارق شاہ
غزل
فانی
فانی بدایونی
فرخ منظور
کلاسیکل شاعریکلاسیکیشاعریکلاسیکیشاعری اردو
شورشِ کائنات نے مارا
موت بن کر حیات نے مارا
پرتوِ حسنِ ذات نے مارا
مجھ کو میری صفات نے مارا
ستمِ یار کی دہائی ہے
نگہِ التفات نے مارا
میں تھا رازِ حیات اور مجھے
میرے رازِ حیات نے مارا
ستمِ زیست آفریں کی قسم
خطرۂ التفات نے مارا
موت کیا؟ ایک لفظِ بے معنی
جس کو مارا حیات نے مارا
جو پڑی...
خاص اِک شان ہے یہ آپ کے دیوانوں کی
دھجیاں خود بخود اڑتی ہیں گریبانوں کی
سخت دشوار حفاظت تھی گریبانوں کی
آبرو موت نے رکھ لی ترے دیوانوں کی
رحم کر اب تو جنوں! جان پہ دیوانوں کی
دھجیاں پاؤں تک آپہنچیں گریبانوں کی
گرد بھی مل نہیں سکتی ترے دیوانوں کی
خاک چھانا کرے اب قیس بیابانوں کی
ہم نے...
کام کرتی رہی وہ چشمِ فسوں ساز اپنا
لبِ جاں بخش دکھایا کیے اعجاز اپنا
سرو گڑ جائیں گے گُل خاک میں مل جاویں گے
پاؤں رکھے تو چمن میں وہ سرافراز اپنا
خندہ زن ہیں، کبھی گریاں ہیں، کبھی نالاں ہیں
نازِ خوباں سے ہوا ہے عجب انداز اپنا
یہی اللہ سے خواہش ہے ہماری اے بُت
کورِ بد بیں ہو ترا، گُنگ ہو...
جب یار دیکھا نین پھر دل کی گئی چنتا اتر
ایسا نہیں کوئی عجب، راکھے اسے سمجھائے کر
جب آنکھ سے اوجھل بھیا، تڑپن لگا میرا جِیا
حقّا الہٰی کیا کیا، آنسو چلے بھر لائے کر
توں تو ہمارا یار ہے ، تجھ پر ہمارا پیار ہے
تجھ دوستی بسیار ہے ، اِک شب ملو تم آئے کر
جاناں طلب تیری کروں ، دیگر طلب کس کی کروں...
مہی گذشت کہ چشمم مجالِ خواب ندارد
مرا شبی است سیہ رو کہ ماہتاب ندارد
گیا وہ چاند نظر کو مجالِ خواب نہیں
شبِ سیہ کے مقدر میں ماہتاب نہیں
نہ عقل ماند نہ دانش نہ صبر ماند نہ طاقت
کسی چنین دل بیچارہء خراب ندارد
رہے نہ ہوش و خرد اور نہ ہی صبر و شکیب
کسی کا دل بھی یوں بیچارہ و خراب نہیں
تو ای...
منظوم ترجمہ از حکیم شمس الالسلام ابدالی، فارسی غزل امیر خسرو
گفتم کہ روشن از قمر گفتا کہ رخسار منست
گفتم کہ شیرین از شکر گفتا کہ گفتار منست
ترجمہ
پوچھا کہ روشن چاند سے؟ بولا مرا رخسار ہے
پوچھا کہ میٹھی قند سے؟ بولا مری گفتار ہے
گفتم طریق عاشقان گفتا وفاداری بود
گفتم مکن جور و جفا، گفتا...