غزل
جُدا زمانے سے ایجاد کیوں نہیں کرتے
سُخن گو اب نیا اِرشاد کیوں نہیں کرتے
خیال آئے ہمیں یاد کیوں نہیں کرتے
بَہَم کرَم وہ پری زاد کیوں نہیں کرتے
تَشفّی دِل کی میسّر کہاں ہے ظالم کو !
یہ اِضطراب، کہ فریاد کیوں نہیں کرتے
ہزاروں وسوَسے خود میں ہو یہ سوال لیے
ہم اُن سے شکوۂ بیداد کیوں نہیں...
غزل
وفورِ عِشق سے بانہوں میں بھر لیا تھا تمھیں
اگرچہ عُمر سے اِک دوست کر لیا تھا تمھیں
رَہے کچھ ایسے تھے حالات، مَیں سمجھ نہ سکا!
پِھر اُس پہ، عِشق میں بھی سہل تر لیا تھا تمھیں
کسی بھی بات کا کیونکر یقیں نہیں تھا مجھے
خُدا ہی جانے، جو آشفتہ سر لیا تھا تمھیں
اگرچہ مشورے بالکل گراں نہیں...
غزل
فراقؔ گورکھپُوری
دیکھنے والے تِرے آج بھی بیدار سے ہیں
آج بھی آنکھ لگائے رسن و دار سے ہیں
مُدّتیں قید میں گُذرِیں، مگر اب تک صیّاد
ہم اسِیرانِ قفس تازہ گرفتار سے ہیں
کیا کہیں وہ تِرے اقرار، کہ اقرار سے تھے
کیا کریں یہ تِرے انکار، کہ انکار سے ہیں
کُچھ نہ جِینے میں ہی رکّھا ہے، نہ مرجانے...