موجِ تبسّم
ستاروں کو نہ آتا تھا ابھی تک مسکرا اٹھنا
دیے بن کر یوں ایوانِ فلک میں جگمگا اٹھنا
حسیں غنچوں کے رنگیں لب تھے ناواقف تبسم سے
چمن گونجا نہ تھا اب تک عنادل کے ترنم سے
نہ پروانے تھے جلتے شمعِ سوزاں کے شراروں میں
نہ آئی تھی ابھی ہمت یہ ننھے جاں نثاروں میں
ابھی گہوارۂ ابرِ بہاری میں وہ...