لکھنوی

  1. طارق شاہ

    صفیؔ لکھنوی:::::ذرّے ذرّے میں ہے جلوہ تِری یکتائ کا:::::Safi- Lakhnavi

    غزل صفؔی لکھنوی ذرّے ذرّے میں ہے جلوہ تِری یکتائ کا دِلِ اِنساں میں، جو ہو شوق شناسائ کا موت ہی قصد نہ کرتی جو مسیحائ کا کون پُرساں تھا مَرِیضِ شَبِ تنہائ کا میری خوشبُو سے ہیں، آزاد ہَوائیں لبریز عطرِ دامن ہُوں قبائے گُلِ صحرائ کا تا سَحر چشمِ تصوُّر میں رہی اِک تصوِیر دِل سے ممنُون ہُوں...
  2. طارق شاہ

    اثؔر لکھنوی :::::بُھولے افسانے وَفا کے یاد دِلواتے ہُوئے :::::Asar -Lakhnavi

    غزل بُھولے افسانے وَفا کے یاد دِلواتے ہُوئے تم تو، آئے اور دِل کی آگ بھڑکاتے ہُوئے موجِ مَے بَل کھا گئی، گُل کو جمَائی آ گئی زُلف کو دیکھا جو اُس عارض پہ لہراتے ہُوئے بے مروّت یاد کر لے، اب تو مُدّت ہو گئی ! تیری باتوں سے دِلِ مُضطر کو بہلاتے ہُوئے نیند سے اُٹھ کر کسی نے اِس طرح آنکھیں مَلِیں...
  3. طارق شاہ

    مجاز مجاؔز لکھنوی :::::: رَہِ شوق سے، اب ہَٹا چاہتا ہُوں::::::Majaz Lakhnawi

    غزل رَہِ شوق سے، اب ہَٹا چاہتا ہُوں کشِش حُسن کی دیکھنا چاہتا ہُوں کوئی دِل سا درد آشنا چاہتاہُوں رَہِ عِشق میں رہنُما چاہتا ہُوں تجھی سے تجھے چِھیننا چاہتا ہُوں یہ کیا چاہتا ہُوں، یہ کیا چاہتا ہُوں خطاؤں پہ، جو مجھ کو مائل کرے پھر سزا ، اور ایسی سزا چاہتا ہُوں وہ مخمُور نظریں، وہ مدہوش...
  4. طارق شاہ

    کرشن بہاری نُور لکھنوی :::: زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں --- Noor Lakhnavi

    غزل نُورلکھنوی زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں اور کیا جُرم ہے پتا ہی نہیں سچ گھٹے یا بڑھے تو سچ نہ رہے جُھوٹ کی کوئی اِنتہا ہی نہیں اتنے حصّوں میں بٹ گیا ہوں میں میرے حصّے میں کچُھ بچا ہی نہیں زندگی! موت تیری منزل ہے دُوسرا کوئی راستا ہی نہیں جس کے کارن فساد ہوتے ہیں اُس کا ، کوئی اتا پتا ہی...
  5. طارق شاہ

    کرشن بہاری نُور لکھنوی :::: وہ لب کہ جیسے ساغر و صہبا دِکھائی دے --- Noor Lakhnavi

    غزلِ نُورلکھنوی وہ لب کہ جیسے ساغر و صہبا دِکھائی دے جُنبش جو ہو تو، جام چھلکتا دِکھائی دے دریا میں یُوں تو ہوتے ہیں، قطرے ہی قطرے سب قطرہ وہی ہے، جس میں کہ دریا دِکھائی دے کیوں آئینہ کہیں اُسے، پتھر نہ کیوں کہیں جس آئینے میں عکس نہ اُس کا دِکھائی دے اُس تشنہ لب کی نیند نہ ٹُوٹے دُعا کرو...
  6. محمد بلال اعظم

    مجاز آوارہ

    آوارہ شہر کی رات اور میں ناشاد و ناکارہ پھروں جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں غیر کی بستی ہے کب تلک دربدر مارا پھروں اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں جھلملاتے قمقموں کی راہ میں زنجیر سی رات کے ہاتھوں میں دن کی موہنی تصویر سی میرے سینے پر مگر چلتی ہوئی شمشیر سی اے غمِ دل کیا کروں اے...
Top