غزل
تائیدِ زمستانِ فغاں تھے کہ نہیں تھے
ہم صرفِ دعا کج کلہاں تھے کہ نہیں تھے
آشوبِ مسافت سے گزرتے ہوئے ہم لوگ
پایابِ سرِ ریگِ رواں تھے کہ نہیں تھے
یہ عشق ہے جس نے ہمیں تجسیم کیا تھا
قبل اس کے تخیّل تھے دھواں تھے کہ نہیں تھے
سیرابیِ صحرائے تعلّق میں شب و روز
ہم لوگ فقط نخلِ گماں تھے کہ نہیں...
غزل
کل رات جیسے ٹوٹ پڑا آسمانِ شب
تعبیر کو ترستے رہے کشتگانِ شب
آنسو بجھے تو کرمکِ شب تاب ہو گئے
یوں رات بھر چمکتا رہا تھا مکانِ شب
دل نے دعا کو ہاتھ اٹھائے تو گر پڑے
ہونٹوں پہ لفظ ہوتے رہے رائگانِ شب
آنکھوں کو نیند ، نیند کو خوابوں سے بَیر تھا
صبحِ گمان ہوتی رہی بدگمانِ شب
یوں بھی اسے...
غزل
عجیب ہوتی ہے وحشت شعار خاموشی
بڑا ہی شور مچاتی ہے یار خاموشی
میں کس خرابۂ اظہار تک چلا آیا
چہار سمت وہی بے شُمار خاموشی
حریمِ لفظ و معانی اُجاڑ لگتا ہے
یہ کس کے لب پہ ہوئی ہے نثار خاموشی
تمام عمر غمِ یار شور کرتا ہے
اور اس کے بعد فقط ایک بار خاموشی
تمہاری نغمہ سرائی پہ کان دھرتی...
ابھی اپنے محمود بھائی (مغزل) کی ایک انتہائی خوبصورت غزل پڑھنے کا شرف حاصل ہوا اور لطفِ کلام کے کیا کہنے۔ کہا تو تھا ان سے کہ وہ خود محفل میں ارسال کریں لیکن پھر رہا نہیں گیا اور محفل میں ان کی یہ سجی سنوری غزل میں ہی ارسال کر رہا ہوں۔ غزلِ مسلسل:
دائرہ حلقۂ پرکار بنا دیتا ہے
اور قلم حاشیہ بردار...
سرنامۂ وحشت ہوں مہجورِ رفاقت نئیں
میں عشق کا بندہ ہوں مزدورِ محبت نئیں
سن صوم و صلوٰةِ عشق کب مجھ سے قضا ہے تو
تجھ نین وضو سے ہوں مفرورِ عبادت نئیں
دل سینے میں چیخ اُٹھّا اے دستِ غزال آثار
میں زخم نہیں دل ہوں مقدورِ مسیحت نئیں
محتاج کہاں ہوں اب دُکھ درد کے درماں کا
تجھ ہونے سے ہنستا ہوں...
آج محفل کے ہر دلعزیز رکن محمد محمود مغل کی سالگرہ ہے۔
ہم مغل بھائی کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے سالگرہ کی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
اللہ مغل بھائی کو ہمیشہ شاد آباد رکھنے (آمین)
غزل - در دیکھنا کبھی، کبھی دیوار دیکھنا
شاہین فصیحؔ ربانی
شاید یہی جنوں کے ہیں آثار دیکھنا
’’در دیکھنا کبھی‘ کبھی دیوار دیکھنا‘‘
رکھنا قدم وہ اپنا جوانی کے چاند پر
عشقِ بتاں میں دل کو گرفتار دیکھنا
پانا نہیں نجات ابھی ایک رنج سے
اک اور غم سے زیست کو دوچار دیکھنا
ساحل پہ اک...
احباب کے ذوقِ مطالعہ کی نذرایک غزل
دریائے غم کا راہ سے ہٹنا محال ہے
اور آدھے راستے سے پلٹنا محال ہے
یھ وہ شب وصال نھیں ھے کھ بیت جائے
تنھائیوں کی رات ھے کٹنا محال ہے
دل چاھتوں کی دھوپ کو ترسے گا اب سدا
بادل کدورتوں کے ھیں چھٹنا محال ہے
عزم و یقیں کو خوف نے معدوم کر دیا
اب درمیاں کے فاصلے...
آج مورخہ 26 جون کو اس محفل کے جانے پہچانے رکن م م مغل کی شادی کی دوسری سالگرہ ہے۔
محمود بھائی اردو محفل کی جانب سے شادی کی دوسری سالگرہ کی بہت بہت مبارک قبول کیجیئے۔
اس بات میں سب کچھ ہے مگر کچھ بھی نہیں ہے
اس سمت کو جاتا ہوں جدھر کچھ بھی نہیں ہے۔
درپیش ہے صحرا کا سفر سوئے چمن زار
اور اس پہ ستم زادِ سفر کچھ بھی نہیں ہے۔
کس شے کے تجسس میں ہو تم محوِ نظارہ
افلاک کے اس پار اگر کچھ بھی نہیں ہے۔
اک عمر محبت کی ریاضت میں گزاری
اب چاکِ گریباں کے دگر کچھ بھی...