غزلِ
ماجد صدیقی
دشتِ خواہش میں کہیں سے تو صدا دے کوئی
میں کہاں ہُوں، مُجھے اِتنا ہی بتا دے کوئی
دل میں جو کچُھ ہے زباں تک نہ وہ آنے پائے
کاش ہونٹوں پہ مِرے مُہر لگا دے کوئی
فصل ساری ہے تمنّاؤں کی یکجا میری
میرا کھلیان، نہ بیدرد جَلا دے کوئی
وہ تو ہوگا جو مِرے ذمّے ہے، مجھ کو چاہے ...
غزلِ
ماجد صدیقی
پتّا گرے شجر سے تو لرزہ ہمیں ہو کیوں
گرتوں کے ساتھ گرنے کا کھٹکا ہمیں ہو کیوں
قارون ہیں جو، زر کی توقّع ہو اُن سے کیا
ایسوں پہ اِس قبیل کا دھوکہ ہمیں ہو کیوں
بے فیض رہبروں سے مرتّب جو ہو چلی
احوال کی وہ شکل، گوارا ہمیں ہو کیوں
ملتی ہے کج روؤں کو نفاذِ ستم پہ جو
ایسی سزا کا ہو...