غزلِ
مجید امجد
اب کے تمھارے دیس کا یہ روپ نیارا تھا
بِکھرا ہُوا ہَواؤں میں سایا تمھارا تھا
گُم سُم کھڑے ہیں اُونچی فصِیلوں کے کنکرے
کوئی صدا نہیں! مجھے کِس نے پُکارا تھا
رات آسماں پہ چاند کی منڈلی میں کون تھا
تم تھے کہ اِک سِتار بجاتا سِتارہ تھا
اُن دُورِیوں میں قُرب کا جادُو عذاب تھا...
غزل
بنے یہ زہر ہی وجہِ شفا، جو تو چاہے
خرید لوں میں یہ نقلی دوا، جو تو چاہے
یہ زرد پنکھڑیاں، جن پر کہ حرف حرف ہوں میں
ہوائے شام میں مہکیں ذرا، جو تو چاہے
تجھے تو علم ہے کیوں میں نے اس طرح چاہا
جو تو نے یوں نہیں چاہا، تو کیا، جو تو چاہے
جب ایک سانس گھسے، ساتھ ایک نوٹ پسے
نظامِ زر...