مژدہء سحر دے کوئی
تعمیرِ فردا کرے کوئی
بہت دنوں سے دکھی ہے
لگائے غریب کو گلے کوئی
جسم ناتواں ، روح بیکراں
غمِ مزدور سمجھے کوئی
کھوکھلا ہو چکا ہے سماج
نظامِ کہن اب بدلے کوئی
دے رہا ہوں اذانِ سحر
سُنتا ہے ارے کوئی
امیرِ شہر کو بھلا کیا غم
مرتا ہے تو مرے کوئی
مخلوق ترستی ہے انصاف کو
صُورِ...