تازہ غزل
مدبر آسان قائل
جدا جدا سا کم و کیف رات رات میں ہے
جزائے ہجر کہاں وصل کی نشاط میں ہے
کھُلا کہ میری تمنا کا تار و پود تمام
تمہارے ہاتھ میں تھا اور تمہارے ہات میں ہے
کھرچ کے دیکھیں تو ارزانیِ وجود کا میل
کہ جز شبیہِ عدم کیا نوادرات میں ہے
کرے نہ گھر دلِ خستہ میں غم تو جائے کہاں
کشادگی...