غزل
دِل کا مُعاملہ جو سُپرد نظر ہُوا
دُشوار سے یہ مرحلہ دُشوار تر ہُوا
اُبھرا ، ہر اِک خیال کی تہہ سے تِرا خیال
دھوکا تِری صدا کا، ہر آواز پر ہُوا
راہوں میں ایک ساتھ یہ کیوں جل اُٹھے چراغ
شاید ترا خیال مرا ہم سفر ہُوا
سمٹی تو اور پھیل گئی ، دِل میں موجِ درد
پھیلا! تو اور دامنِ غم...
غزل
نہ کسی کی آنکھ کا نُور ہُوں، نہ کسی کے دِل کا قرار ہُوں
جو کسی کے کام نہ آ سکے، میں وہ ایک مُشتِ غُبار ہُوں
میں نہیں ہُوں نغمۂ جاں فِزا، مجھے سُن کے کوئی کرے گا کیا
میں بڑے بروگ کی ہُوں صدا، میں بڑے دُکھی کی پُکار ہُوں
میرا رنگ رُوپ بِگڑ گیا، مِرا یار مجھ سے بِچھڑ گیا
جو چمن...
ہر ظلم ترا یاد ہے، بھولا تو نہیں ہوں
اے وعدہ فراموش میں تجھ سا تو نہیں ہوں
اے وقت مٹانا مجھے آسان نہیں ہے
انساں ہوں کوئی نقش کف پا تو نہیں ہوں
چپ چاپ سہی مصلحتاً وقت کے ہاتھوں
مجبور سہی وقت سے ہارا تو نہیں ہوں
یہ دن تو مجھے ان کے تغافل نے دکھائے
میں گردشِ دوراں ترا مارا تو نہیں ہوں
اُن کے...
نہ کسی کی آنکھ کا نُور ہوں، نہ کسی کے دِل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آ سکے، میں وہ ایک مُشتِ غُبار ہوں
میں نہیں ہوں نغمۂ جاں فزا، مجھے سن کے کوئی کرے گا کیا
میں بڑے بروگ کی ہوں صدا، میں بڑے دکھی کی پکار ہوں
مرا رنگ روپ بگڑ گیا‘ مرا بخت مجھ سے بچھڑ گیا
جو چمن خزاں سے اجڑ گیا، میں اسی کی فصل...
وہ ہنسنے کو تو ہنس رہا ہوئے گا
مگر حال اس کا برا ہوئے گا
مرا اس سے جو فاصلہ ہوئے گا
مجھے بھی نہ اس کا پتا ہوئے گا
وہ لمحہ جو امسال رک کر ملا
خدا جانے کب کا چلا ہوئے گا
جسے میرے ایماں کا بھی علم ہے
وہ جھوٹا نہیں تو خدا ہوئے گا
جمائی ہے سرخی جو اخبار نے
سنا اس کو، تیرا بھلا ہوئے گا
وہ آئے گا...
چوہدری محمد علی مضطرؔ کے ایک دو غزلے کی دوسری غزل
پھر کوئی طرفہ تماشا کر دے
میں بُرا ہوں، مجھے اچھا کر دے
کہیں ایسا نہ ہو کوئی لمحہ
تجھ کو چھو کر تجھے تنہا کر دے
لفظ مر جائے اگر بچپن میں
اس کا وارث کوئی پیدا کر دے
بخش دے میری علامت مجھ کو
میرے سر پر مرا سایہ کر دے
رنگ و بُو بانٹ دے اس سے لے...
چوہدری محمد علی مضطرؔ کے ایک دو غزلے کے سلسلے کی پہلی غزل
دل دیا ہے تو پھر اتنا کر دے
اِس کو کچھ اور کشادہ کر دے
بھر نہ جائے کہیں سہلانے سے
زخم کو اور بھی گہرا کر دے
کہیں ایسا نہ ہو میرا سایہ
تیری تصویر کو دھندلا کر دے
پھر پسِ پردۂ گردِ ایّام
کوئی لمحہ نہ اشارہ کر دے
میں ہوں شرمندۂ خوابِ...
صلہ کوئی تو سرِ اوجِ دار دینا تھا
نہیں تھا پھول تو پتھر ہی مار دینا تھا
حریفِ دار بھی پروردگار! دینا تھا
دیا تھا غم تو کوئی غم گسار دینا تھا
یہ وہ زمین تھی جو آسماں سے اتری تھی
یہ وہ حوالہ تھا جو بار بار دینا تھا
وہ اک حسین تھا اس عہد کے حسینوں میں
اسے کسی نے تو کافر قرار دینا تھا
میں اپنی...
محترم چور صاحب قبلہ ۔ از احمد ندیم قاسمی
سنا ہے کہ تلاشِ گم شدہ کے بعض اشتہارات بہت نتیجہ خیز ثابت ہوتے ہیں۔ مثلاً مشہور ہے کہ ایک شخص کا بریف کیس چوری ہو گیا۔ اس نے پولیس میں رپورٹ لکھوانے کی بجائے اخبار میں ایک اشتہار دیا جس کا مضمون کچھ اس طرح کا تھا:
محترم چور صاحب قبلہ! السلام علیکم! آپ...
کانٹے ہیں اور پاؤں میں چھالے پڑے ہوئے
پیاسوں کے درمیاں ہیں پیالے پڑے ہوئے
آندھی بھی ہے چڑھی ہوئی، نازک ہے ڈور بھی
کچھ پیچ بھی ہیں اب کے نرالے پڑے ہوئے
اترا تھا چاند شہرِ دل و جاں میں ایک بار
اب تک ہیں آنگنوں میں اجالے پڑے ہوئے
رہزن کو بھی فرار کا رستہ نہ مل سکا
چاروں طرف تھے قافلے والے پڑے...