غزل
مضطرؔ مجاز
دھرتی کے باسیوں میں نہ آکاشیوں میں تھا
تسبیح کوشیوں میں نہ شب باشیوں میں تھا
میں اس کو ڈھونڈ ڈھونڈ کے ہلکان ہو گیا
سنتا ہوں چشمِ تر کی گہر پاشیوں میں تھا
کر کے جدا کتاب کو متنِ کتب سے
یاروں کا سارا زورِ بیاں حاشیوں میں تھا
ہوتے ہی بند جسم کا بازار، کھل گیا...
مرزا غالبؔ
مضطر مجازؔ
مایۂ ذوق سخن خاصۂ خاصانِ غزل
وہ تری ذات کہ ہے جس سے فزوں شانِ غزل
تیرا ہر لفظ ہے گنجینۂ معنی کا طلسم
تیرا ہر مصرعۂ تر گوہرِ تابانِ غزل
تیرے ہر نقش سے آرائشِ ایوانِ سخن
تیرے ہر شعر سے افزائشِ ایمانِ غزل
ہر عبارت میں تری بادۂ معنی کا سرور
ہر اشارت میں تری نشۂ عرفانِ غزل
تجھ...