چوہدری محمد علی مضطرؔ کے ایک دو غزلے کی دوسری غزل
پھر کوئی طرفہ تماشا کر دے
میں بُرا ہوں، مجھے اچھا کر دے
کہیں ایسا نہ ہو کوئی لمحہ
تجھ کو چھو کر تجھے تنہا کر دے
لفظ مر جائے اگر بچپن میں
اس کا وارث کوئی پیدا کر دے
بخش دے میری علامت مجھ کو
میرے سر پر مرا سایہ کر دے
رنگ و بُو بانٹ دے اس سے لے...
چوہدری محمد علی مضطرؔ کے ایک دو غزلے کے سلسلے کی پہلی غزل
دل دیا ہے تو پھر اتنا کر دے
اِس کو کچھ اور کشادہ کر دے
بھر نہ جائے کہیں سہلانے سے
زخم کو اور بھی گہرا کر دے
کہیں ایسا نہ ہو میرا سایہ
تیری تصویر کو دھندلا کر دے
پھر پسِ پردۂ گردِ ایّام
کوئی لمحہ نہ اشارہ کر دے
میں ہوں شرمندۂ خوابِ...
صلہ کوئی تو سرِ اوجِ دار دینا تھا
نہیں تھا پھول تو پتھر ہی مار دینا تھا
حریفِ دار بھی پروردگار! دینا تھا
دیا تھا غم تو کوئی غم گسار دینا تھا
یہ وہ زمین تھی جو آسماں سے اتری تھی
یہ وہ حوالہ تھا جو بار بار دینا تھا
وہ اک حسین تھا اس عہد کے حسینوں میں
اسے کسی نے تو کافر قرار دینا تھا
میں اپنی...