غزل
مجرُوح سُلطان پُوری
خنجر کی طرح بُوئے سَمن تیز بہت ہے
مَوسم کی ہَوا، اب کے جُنوں خیز بہت ہے
راس آئے تو ، ہر سر پہ بہت چھاؤں گھنی ہے
ہاتھ آئے ، تو ہر شاخ ثمر بیز بہت ہے
لوگو مِری گُل کارئ وحشت کا صِلہ کیا
دِیوانے کو اِک حرفِ دِلآویز بہت ہے
مُنعَم کی طرح ، پیرِ حَرَم پیتے ہیں وہ جام ...
غزل
اہلِ طُوفاں! آؤ دِل والوں کا افسانہ کہیں
موج کو گیسُو، بھنوَر کو چشمِ جانانہ کہیں
دار پر چڑھ کر، لگا ئیں نعرۂ زُلفِ صَنم!
سب، ہمیں باہوش سمجھیں چاہے دِیوانہ کہیں
یارِ نکتہ داں کدھر ہے، پھر چلیں اُس کے حضوُر
زندگی کو دِل کہیں اور دِل کو نذرانہ کہیں
تھامیں اُس بُت کی کلائی اور کہیں اُس کو...
غزل
آ ہی جائے گی سَحر مطلعِ اِمکاں تو کُھلا
نہ سہی بابِ قفس، روزنِ زِنداں تو کُھلا
لے کے آئی تو صبا اُس گُلِ چینی کا پیام
وہ سہی زخم کی صُورت، لبِ خنداں تو کُھلا
سیلِ رنگ آ ہی رہے گا، مگر اے کشتِ چمن!
ضربِ موسم تو پڑی، بند ِبہاراں تو کُھلا
دِل تلک پہنچے نہ پہنچے، مگر اے چشم ِحیات !
بعد...
غزل
(میر مہدی مجروح)
قتل کرتا ہے تو کر، خوف کسی کا کیا ہے
سر یہ موجود ہے، ہر دم کا تقاضا کیا ہے
نزع کے وقت یہ آنکھوں کا اشارا کیا ہے
سامنے میرے دھرا ساغرِ صہبا کیا ہے
اپنا یوں دُور سے آ آ کے دکھانا جوبن
اور پھر پوچھنا مجھ سے کہ تمنّا کیا ہے
چشمِ پُر آب مری دیکھ کے ہنس کر بولے
یہ تو اک نوح کا...
غزل
(میر مہدی مجروح)
وہ کہاں جلوہء جاں بخش بتانِ دہلی
کیونکہ جنّت پہ کیا جائے گمانِ دہلی
ان کا بےوجہ نہیں ٹوٹ کے ہونا برباد
ڈھونڈے ہے اپنے مکینوں کو مکانِ دہلی
جس کے جھونکے سے صبا طبلہ عطار بنے
ہے وہ بادِ سحر عطر فشانِ دہلی
مہر زر خاک کو کرتا ہے یہ سچ ہے لیکن
اس سے کچھ بڑھ کے ہیں صاحب نظرانِ...
میرؔ کی عظمت کا اعتراف اساتذہ کی زبان سے:
سوداؔ:
مرزا سوداؔ جو میرؔ صاحب کے ہمعصر اور مدِّ مقابل تھے، کہتے ہیں
سوداؔ تو اس غزل کو غزل در غزل ہی لکھ
ہونا ہے تجھ کو میرؔ سے استاد کی طرح
ناسخ:
شیخ ناسخؔ جو اپنی تنک مزاجی اور بد دماغی کے لئے مشہور ہیں، کہتے ہیں
شبہ ناسخؔ نہیں کچھ میرؔ کی استادی...
غزل
(جناب میر مہدی صاحب مجروح دہلوی مرحوم و مغفور)
نہیں رازِ ہستی جتانے کے قابل
یہ پردہ نہیں ہے اُٹھانے کے قابل
طلب بوسہ کرتے ہی جھنجلا کے بولے
کہ تو تو نہیں منہ لگانے کے قابل
کیا ضعف نے یہ نکمّا کہ اب ہم
نہ آنے کے قابل نہ جانے کے قابل
اُس آئینہ رو کی بداطواریوں نے
نہ رکھا ہمیں منہ...
غزل
(میر مہدی حسین مجروحرحمتہ اللہ علیہ)
عدو پر ہے یہ لطفِ دم بدم کیا؟
ہوئے وہ آپ کے قول و قسم کیا؟
ملیں اس تندخو سے جا کے ہم کیا
یہ سچ ہے آب و آتش ہوں بہم کیا
ذرا ذرے کی تم مقدار دیکھو
ہمارا بیش و کم کیا اور ہم کیا
کھڑے ہیں چوکڑی بھولے جو آہو
نظر ان کا پڑا اندازِ رم کیا؟
نہاں ہر شکر...
غزل
(جناب میر مہدی صاحب مجروح دہلوی مرحوم رحمتہ اللہ علیہ)
شاگرد رشید
(حضرت نجم الدولہ دبیرالملک اسد اللہ خاں غالب رحمتہ اللہ علیہ)
ایذا ہی درد ہجر سے پائی تمام رات
کل ایک لمحہ ہم نے نہ پائی تمام رات
بیدار ایک میں ہی فراق صنم میں ہوں
سوتی ہے ورنہ ساری خدائی تمام رات
اپنی شب وصال...
نوحہ: بیادِ غالب
(از: میر مہدی مجروح)
کیوں نہ ویراں ہو دیارِ سخن
مر گیا آج تاجدارِ سخن
بلبلِ خوش ترانہء معنی
گل رنگیں و شاخسارِ سخن
نخل بندِ حدیقہء مضموں
تازگی بخش لالہ زارِ سخن
عرصہء نظم کیوں نہ ہو ویراں
ہے عناں کش وہ شہسوار سخن
کیوں نہ حرفوں کا ہو لباس سیاہ
ہے غم مرگِ شہر...
غزل
لڑ کے اغیار سے جُدا ہیں آپ
مجھ سے بے وجہ کیوں خفا ہیں آپ
میں اور اُلفت میں ہوں کہیں پابند
وہم میں مجھ سے بھی سوا ہیں آپ
غمزہ سے ناز سے لگاوٹ سے
ہر طرح آرزو فزا ہیں آپ
یاں تو دل ہی نہیں ہے پھر کیا دیں
یہ تو مانا کہ دل رُبا ہیں آپ
کون سا دل نہیں تمہاری جا
جلوہ فرما ہر ایک جا ہیں...
ہم ہیں متاعِ کوچہ و بازار کی طرح
اٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح
اس کوئے تشنگی میں بہت ہے کہ ایک جام
ہاتھ آگیا ہے دولتِ بیدار کی طرح
وہ تو کہیں ہے اور مگر دل کے آس پاس
پھرتی ہے کوئی شے نگاہِ یار کی طرح
سیدھی ہے راہِ عشق پہ لیکن کبھی کبھی
خم ہوگئی ہے گیسوئے دلدار کی طرح
اب جا کے...
جب ہوا عرفاں تو غم آرامِ جاں بنتا گیا
سوزِ جاناں دل میں سوزِ دیگراں بنتا گیا
رفتہ رفتہ منقلب ہوتی گئی رسمِ چمن
دھیرے دھیرے نغمۂ دل بھی فغاں بنتا گیا
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
میں تو جب جانوں کہ بھر دے ساغرِ ہر خاص و عام
یوں تو جو آیا وہی پیرِ...