غزل
مجرُوح سُلطان پُوری
خنجر کی طرح بُوئے سَمن تیز بہت ہے
مَوسم کی ہَوا، اب کے جُنوں خیز بہت ہے
راس آئے تو ، ہر سر پہ بہت چھاؤں گھنی ہے
ہاتھ آئے ، تو ہر شاخ ثمر بیز بہت ہے
لوگو مِری گُل کارئ وحشت کا صِلہ کیا
دِیوانے کو اِک حرفِ دِلآویز بہت ہے
مُنعَم کی طرح ، پیرِ حَرَم پیتے ہیں وہ جام ...
غزل
اہلِ طُوفاں! آؤ دِل والوں کا افسانہ کہیں
موج کو گیسُو، بھنوَر کو چشمِ جانانہ کہیں
دار پر چڑھ کر، لگا ئیں نعرۂ زُلفِ صَنم!
سب، ہمیں باہوش سمجھیں چاہے دِیوانہ کہیں
یارِ نکتہ داں کدھر ہے، پھر چلیں اُس کے حضوُر
زندگی کو دِل کہیں اور دِل کو نذرانہ کہیں
تھامیں اُس بُت کی کلائی اور کہیں اُس کو...
غزل
آ ہی جائے گی سَحر مطلعِ اِمکاں تو کُھلا
نہ سہی بابِ قفس، روزنِ زِنداں تو کُھلا
لے کے آئی تو صبا اُس گُلِ چینی کا پیام
وہ سہی زخم کی صُورت، لبِ خنداں تو کُھلا
سیلِ رنگ آ ہی رہے گا، مگر اے کشتِ چمن!
ضربِ موسم تو پڑی، بند ِبہاراں تو کُھلا
دِل تلک پہنچے نہ پہنچے، مگر اے چشم ِحیات !
بعد...
مسرتوں کو یہ اہلِ ہوس نہ کھو دیتے
جو ہر خوشی میں تِرے غم کو بھی سمو دیتے
کہاں وہ شب، کہ تِرے گیسوؤں کے سائے میں
خیالِ صبح سے ہم آستِیں بھِگو دیتے
بہانے اور بھی ہوتے جو زندگی کے لیے
ہم ایک بار تِری آرزو بھی کھو دیتے
بچا لیا مجھے طوفاں کی موج نے ورنہ
کنارے والے سفینہ مِرا ڈبو دیتے
جو دیکھتے...
وہ جو منہ پھیر کر گزر جائے
حشر کا بھی نشہ اتر جائے
اب تو لے لے زندگی یارب
کیوں یہ تہمت بھی اپنے سر جائے
آج تھی اس طرح نگاہِ کرم
جیسے شبنم سے پھول بھر جائے
اجنبی رات اجنبی دنیا
ترا مجروح اب کدھر جائے
غزل
(مجروح سلطان پوری)
مجھ سے کہا جبریل جنوں نے یہ بھی وحی الہٰی ہے
مذہب تو بس مذہبِ دل ہے، باقی سب گمراہی ہے
وہ جو ہوئے فردوس بدر تقصیر تھی وہ آدم کی مگر
میرا مذہب در بدری میری ناکردہ گناہی ہے
سنگ تو کوئی بڑھ کے اُٹھاؤ شاخ ثمر کچھ دور نہیں
جس کو بلندی سمجھے ہو ان ہاتھوں کی کوتاہی ہے
پھر کوئی...
غزل
(مجروح سلطان پوری)
ہم کو جنوں کیا سکھلاتے ہو، ہم تھے پریشاں تم سے زیادہ
چاک کیےٴ ہیں ہم نے عزیزو، چار گریباں تم سے زیادہ
چاکِ جگر محتاجِ رفو ہے، آج تو دامن صرف لہو ہے
ایک موسم تھا ہم کو رہا ہے شوقِ بہاراں تم سے زیادہ
عہدِ وفا یاروں سے نبہائیں، نازِ حریفاں ہنس کے اُٹھائیں
جب ہمیں ارماں تم...
دُور دُور مجھ سے وہ اس طرح خراماں ہے
ہر قدم ہے نقشِ دل، ہر نگہ رگِ جاں ہے
بن گئی ہے مستی میں دل کی بات ہنگامہ
قطرہ تھی جو ساغر میں لب تک آ کے طوفاں ہے
ہم تو پائے جاناں پر کر بھی آئے اِک سجدہ
سوچتی رہی دنیا کفر ہے کہ ایماں ہے
میرے شکوۂ غم سے عالمِ ندامت میں
اُس لبِ تبسّم پر شمع سی فروزاں ہے...
جب ہوا عرفاں تو غم آرامِ جاں بنتا گیا
سوزِ جاناں دل میں سوزِ دیگراں بنتا گیا
رفتہ رفتہ منقلب ہوتی گئی رسمِ چمن
دھیرے دھیرے نغمۂ دل بھی فغاں بنتا گیا
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
میں تو جب جانوں کہ بھر دے ساغرِ ہر خاص و عام
یوں تو جو آیا وہی پیرِ...