پُہنچے ہے ہم کو عِشق میں آزار ہر طرح
ہوتے ہیں ہم ستم زدہ بیمار ہر طرح
ترکیب و طرح، ناز و ادا، سب سے دل لگی !
اُس طرحدار کے ہیں گرفتار ہر طرح
یوسفؑ کی اِس نظیر سے دل کو نہ جمع رکھ !
ایسی متاع، جاتی ہے بازار ہر طرح
جس طرح مَیں دِکھائی دِیا ،اُس سے لگ پڑے !
ہم کشت و خُوں کے ہیں گے سزاوار ہر...
غزلِ
میر تقی میر
مُدّت ہوئی کہ بیچ میں پیغام بھی نہیں
نامے کا اُس کی مہر سے اب نام بھی نہیں
ایّامِ ہجْر کریے بسر کِس اُمید پر
مِلنا اُنھوں کا صُبح نہیں، شام بھی نہیں
پَروا اُسے ہو کاہےکو، ناکام گر مَرُوں
اُس کام جاں کو مجھ سے تو کُچھ کام بھی نہیں
رووَیں اِس اِضطراب دِلی کو کہاں تلک
دِن...