غزل
باعثِ وحشتِ دلگیر بنانے لگا تھا
جب خدا خاک کی تقدیر بنانے لگا تھا
خوں بہا مجھ سے نہ مانگو کہ یہ مرنے والا
اس قبیلے کے لیے تیر بنانے لگا تھا
ایک معبودِ تفکر نے دیا مجھ کو جگا
ورنہ میں خواب کی تعبیر بنانے لگا تھا
اس لیے دستِ ہوا پر ہوا افسوس کہ وہ
نقشِ پا کے لیے زنجیر بنانے لگا...