غزل
گُھپ اندھیرے میں چُھپے سُوئے بنوں کے اور سے
گیت برکھا کے سُنو ، رنگوں میں ڈُوبے مور سے
شام ہوتے ہی دِلوں کی بے کلی بڑھنے لگی
ڈررہی ہیں گوریاں چلتی ہَوا کے زور سے
رات کے سُنسان گُنبد میں رچی ہے راس سی
پہرے داروں کی صداؤں کے طلِسمی شور سے
لاکھ پلکوں کو جُھکاؤ ، لاکھ گھونگھٹ میں چُھپو...
غزل
کُھل گئے ہیں بہار کے رستے
ایک دِلکش دیار کے رستے
ہم بھی پہنچے کسی حقیقت تک
اِک مُسلسل خُمار کے رستے
منزلِ عِشق کی حدوں پر ہیں
دائمی اِنتظار کے رستے
اُس کے ہونے سے یہ سفر بھی ہے
سارے رستے ہیں یار کے رستے
جانے کِس شہر کو مُنؔیر گئے
اپنی بستی کے پار کے رستے
مُنؔیر نیازی
غزل
آگئی یاد، شام ڈھلتے ہی
بُجھ گیا دِل چراغ جلتے ہی
کُھل گئے شہرِِغم کے دروازے
اِک ذرا سی ہَوا کے چلتے ہی
کون تھا تُو، کہ پھر نہ دیکھا تُجھے
مِٹ گیا خواب آنکھ ملتے ہی
خوف آتا ہے اپنے ہی گھر سے
ماہِ شب تاب کے نِکلتے ہی
تُو بھی جیسے بدل سا جاتا ہے
عکسِ دِیوار کے بدلتے ہی
خُون سا لگ گیا ہے...
غزل
قرار، ہجر میں اُس کے شراب میں نہ ملِا
وہ رنگ اُس گلِ رعنا کا، خواب میں نہ ملِا
عجب کشش تھی نظر پر سرابِ صحرا سے
گُہر مگر وہ نظر کا اُس آب میں نہ ملِا
بس ایک ہجرتِ دائم گھروں، زمینوں سے
نشانِ مرکزِ دِل اِضطراب میں نہ ملِا
سفر میں دُھوپ کا منظر تھا اور ،سائے کا اور
مِلا جو مہر میں مجھ کو،...
غزل
(سید محمد اسمعیل متخلص بہ منیر )
پلکوں کی محبت کا خلل جائے تو جانیں
یہ پھانس کلیجے سے نکل جائے تو جانیں
ہر چند کہ آوارہ بہت ہے دلِ وحشی
باہر ترے کوچے سے نکل جائے تو جانیں
دل کے تو خریدار نظر آتے ہیں لاکھوں
چُٹکی سے کلیجہ کوئی مَل جائے تو جانیں
سوبار بلائے شبِ فرقت...
اپنی ہی تیغِ ادا سے آپ گھائل ہوگیا
چاند نے پانی میں دیکھا اور پاگل ہوگیا
وہ ہوا تھی شام ہی سے رستے خالی ہوگئے
وہ گھٹا برسی کے سارا شہر جل تھل ہوگیا
میں اکیلا اور سفر کی شام رنگوں میںڈھلی
پھر یہ منظر میری آنکھوں سے بھی اوجھل ہوگیا
اب کہاں ہوگا وہ اور ہوگا بھی تو ویسا کہاں
سوچ کر یہ بات جی...