تحریر: منصوراحمد
میرے دوست نے کہا یار تم بلاگ کیوں نہیں لکھتے، میں نے پوچھ لیا کیسے لکھتے ہیں بلاگ؟ بس پھر کیا تھا مشورہ دینے والا دوست یک دم فلسفی بن گیا ،عقل بند نےذہن پرزور ڈالتے ہوئے ایسا منہ بنایا جیسے قبض ہو، اور منہ ٹیڑھا کرکے بولا ، بھائی بہت آسان ہے ، جو دیکھو، اس کو سمجھو اور سادہ سے...
وہ نشانے پہ مرے آخری طائر ہونا
پھر اُسی آن کہیں اور سے فائر ہونا
حاکمِ وقت کے چہرے پہ طمانچے کی طرح
قحط کے شہر میں غلے کے ذخائر ہونا
زندگی ! تیری کچہری میں کئی سال سے ہوں
کب عدالت میں مرا کیس ہے دائر ہونا
تیری آنکھوں کے علاوہ یہ کہاں ممکن ہے
مرتکز رہنا وہیں ، دھیان بغائر ہونا
یاد کی سمت...
دیوار پہ دستک
دوتہائی اکثریت کا دائرہ
منصور آفاق
نئی انصاف گاہوں (عسکری )کے خلاف یومِ سیاہ منایاگیا۔کچہریوں میں چیخ چیخ کر اعلان کیا گیا کہ منصفی کی عمارت میں کوئی نئی کھڑکی نہیں کھولی جاسکتی۔فوری عدل کےلئے انصاف کی دہلیز پر کوئی نیا دروازہ وا نہیں کیا جاسکتاچاہے آپ کے بچے بھیڑوں بکریوں کی...
!
منصور آفاق ان دنوں لاہور آئے ہوئے ہیں۔ کالم کے ذریعے پہلے بھی ملاقات ہو جاتی تھی اور ان کی نئی شاعری کی گونج بھی اکثر و بیشتر سنائی دے جاتی۔ ''نیند کی نوٹ بُک‘‘ ان کا غالباً پہلا مجموعۂ کلام تھا۔ اب ''دیوانِ منصور‘‘ کے نام سے ان کا مفصل کام زیر ترتیب ہے جو کم و بیش 900 سے 1000 صفحات کو محیط...
تبصرہ اس کے بدن پر بس یہی کرتا رہا
آسماں تجھ کو بنا کر کافری کرتا رہا
میں ابوجہلوں کی بستی میں اکیلا آدمی
چاہتے تھے جو ، وہی پیغمبری کرتا رہا
نیند آجائے کسی صورت مجھے، اس واسطے
میں ، خیالِ یار سے پہلو تہی کرتا رہا
کھول کر رنگوں بھرے سندر پرندوں کے قفس
میں بہشت ِ دید کے ملزم بری کرتا رہا...
دیوار پہ دستک
جمہوری عمل کی ضمانت
منصور آفاق
یہ پرسوں رات کی بات ہے صبح کے چار بجے ایک خواب نے میری آنکھ کھول دی ۔عجیب خواب تھاچپک کر رہ گیا تھاآنکھ سے۔ اس کی ایک ایک جزو شعور میں موجود تھی۔جیسے میںکسی خواب سے نہیں حقیقت سے گزر کر آیا ہوں۔ خواب کیا تھا نور کا دریا رواں دواں تھا اس کے کنارے پر...
قصہ چہار درویش...دیوار پہ دستک … منصور آفاق
ایک اَن تراشیدہ پتھروں کی صدیوں پرانی غار میں آگ جل رہی تھی۔اس کے اردو گرد چار درویش بیٹھے ہوئے تھے ان کے چہروں مٹی کی اتنی موٹی تہیں جم چکی تھیں کہ خدو خال پہچانے نہیں جا رہے تھے۔پٹ سن کا ہاتھ سے بناہوا خاکی لباس ،لباس نہیں لگ رہا تھایوں لگتا ہے...
دشت کی صدیوں پرانی آنکھ میں
ہے ہوا کی نوحہ خوانی آنکھ میں
اسمِ اللہ کے تصور سے گرے
آبشارِ بیکرانی آنکھ میں
لال قلعے سے قطب مینار تک
وقت کی ہے شہ جہانی آنکھ میں
لکھ رہا ہے اس کا آیت سا بدن
ایک تفسیرِ قرانی آنکھ میں
دودھیا باہیں ، سنہری چوڑیاں
گھومتی ہے اک مدھانی آنکھ میں
دیکھتا ہوں جو دکھاتا...
امید ِ وصل ہے جس سے وہ یار کیسا ہے
وہ دیکھنا ہے جسے بار بار کیسا ہے
اٹھانیں کیسی ہیں اسکی ، خطوط کیسے ہیں
بدن کا قریہ ء نقش و نگار کیسا ہے
ادائیں کیسی ہیں کھانے کی میز پر اس کی
لباس کیسا ہے اُس کا، سنگھار کیسا ہے
وہ کیسے بال جھٹکتی ہے اپنے چہرے سے
لبوں سے پھوٹتے دن کا نکھار کیسا ہے
وہ شاخیں...
اک ایک سایہ ء ہجراں کے ساتھ پوری کی
پھر ایک پوری دیانت سے رات پوری کی
میں ایک کْن کی صدا تھا سو عمر بھر میں نے
ادھوری جو تھی پڑی کائنات پوری کی
عجیب عالمِ وحشت ، عجیب دانائی
کبھی بکھیرا ، کبھی اپنی ذات پوری کی
تھلوں کی ریت میں بو بو کے پیاس کے کربل
پھر آبِ سندھ نے رسمِ فرات پوری کی
پلک پلک...
منصور آفاق
جتنے موتی گرے آنکھ سے ، جتنا تیرا خسارا ہوا
دست بستہ تجھے کہہ رہے ہیں وہ سارا ہمارا ہوا
آگرا زندہ شمشان میں لکڑیوں کا دھواں دیکھ کر
اک مسافر پرندہ کئی سرد راتوں کا مارا ہوا
ہم نے دیکھا اسے، بہتے سپنے کے عرشے پہ کچھ دیرتک
پھر اچانک چہکتے سمندر کا خالی کنارا ہوا
جا رہا ہے یونہی...
میرے لئے یہ مسئلہ دن بدن سنجیدہ سے سنجیدہ تر ہوتا چلا جا رہا ہے کہ جب کبھی کسی دوست کے بارے میں مجھے کچھ کہنا ہوتا ہے تو بات تیس چالیس سال پہلے سے شروع کرنا پڑتی ہے۔ مثلاً یہ کہ موصوف سے میری پہلی ملاقات آج سے چالیس سال پہلے ان کی چالیسویں سالگرہ کی تقریب میں ہوئی۔ اس تمہید کے نتیجے میں موصوف کے...
امید کی آخری شمع...دیوار پہ دستک …منصورآفاق
میرے بڑے بھائی ڈاکٹر مشتاق احمدخان لاہور میں ہوتے ہیں کل انہوں نے مجھے ویڈیو کال کی اور خاصی دیر گفتگو کرتے رہے، اس کا کچھ حصہ پیش خدمت ہے۔
”تم کیوں عمران خان کے حق میں لکھتے ہو “۔
”بھائی جان اور کس کے حق میں لکھوں “۔
”شہباز شریف بڑ ے عوامی آدمی...
سرنامۂ وحشت ہوں مہجورِ رفاقت نئیں
میں عشق کا بندہ ہوں مزدورِ محبت نئیں
سن صوم و صلوٰةِ عشق کب مجھ سے قضا ہے تو
تجھ نین وضو سے ہوں مفرورِ عبادت نئیں
دل سینے میں چیخ اُٹھّا اے دستِ غزال آثار
میں زخم نہیں دل ہوں مقدورِ مسیحت نئیں
محتاج کہاں ہوں اب دُکھ درد کے درماں کا
تجھ ہونے سے ہنستا ہوں...
اہلبیت میں سے محمد بن عبداللہ جو نفس زکیہ کے لقب سے مشہور تھے اپنی خلافت کے لئے بہت کوشاں تھے ۔ بنی امیہ کے آخری خلیفہ مروان کے زمانے میں اکثر روساء بنی ہاشم نے ان کی امامت کی بیعت کی تھی اور ان کو مہدی تسلیم کیا تھا،۔ اس بیعت میں سفاح اور منصور بھی شامل تھے۔ اس وجہ سے جب عباسیوں نے خلافت...