گیت
(منظر بھوپالی)
تم بھی پیو ہم بھی پئیں رب کی مہربانی
پیار کے کٹورے میں گنگا کا پانی
پیار کے کٹورے میں گنگا کا پانی
پیار کے کٹورے میں ۔۔۔۔
تم نے بھی سنواری ہے، ہم نے بھی سنواری
یہ زمیں تمہاری ہے، یہ زمیں ہماری ہے
تم نے بھی سنواری ہے، ہم نے بھی سنواری
یہ زمیں تمہاری ہے، یہ زمیں ہماری ہے...
غزل
(منظر بھوپالی)
سحر نے اندھی گلی کی طرف نہیں دیکھا
جسے طلب تھی اُسی کی طرف نہیں دیکھا
سبھی کو دُکھ تھا سمندر کی بیقراری کا
کسی نے مُڑ کے ندی کی طرف نہیں دیکھا
جو آئینے سے ملا آئینے پہ جھنجھلایا
کسی نے اپنی کمی کی طرف نہیں دیکھا
سفر کے بیچ یہ کیسا بدل گیا موسم
کہ پھر کسی نے کسی کی طرف نہیں...
غزل
(منظر بھوپالی)
ظلم والوں سے محبت نہیں کرسکتا میں
ان گنہگاروں کی عزت نہیں کرسکتا میں
ہر غلط بات پہ میں آپ کی کہہ دو لبیک
اس طرح خونِ صداقت نہیں کرسکتا میں
وہ تو زخموں کو نمکدان بنا دیتے ہیں
دل کے زخموں پہ سیاست نہیں کرسکتا میں
بات سنتے ہی اُتر آتے ہیں گستاخی پر
اب تو بچوں کو نصیحت نہیں...
غزل
(منظر بھوپالی)
گزر چکا ہے زمانہ وہ انکساری کا
کہ اب مزاج بنا لیجئے شکاری کا
ہم احترامِ محبت میں سر جھکاتے ہیں
غلط نکالنا مفہوم خاکساری کا
وہ بادشاہ بنے بیٹھے ہیں مقدر سے
مگر مزاج ہے اب تک وہی بھکاری کا
سب اُس کے جھوٹ کو بھی سچ سمجھنے لگتے ہیں
وہ ایسا ڈھونگ رچاتا ہے شرمساری کا
جنہیں بلندی...
غزل
(منظر بھوپالی)
اہلِ کراچی کے لیئے منظر بھوپالی کی طرف سے
اب آسمانوں سے آنے والا کوئی نہیں ہے
اُٹھو کہ تم کو جگانے والا کوئی نہیں ہے
محافظ اپنے ہو آپ ہی تم یہ یاد رکھو
پڑوس میں بھی بچانے والا کوئی نہیں ہے
فضا میں بارود اُڑ رہی ہے جدھر بھی دیکھو
جہاں میں اب گُل کھلانے والا کوئی نہیں ہے
یہاں...
غزل
(منظر بھوپالی)
اہلِ کراچی کے لیئے منظر بھوپالی کی طرف سے
تم بھی بُلبل ہو اس باغ کے اور ہم شانِ گلزار ہیں
ساری سانسیں تمہاری نہیں، ہم بھی جینے کے حقدار ہیں
تنگ کردی گئی ہے زمیں، ہم پہ اس واسطے آج کل
ہم پجاری ہیں سچائی کے، آئینوں کے طرف دار ہیں
دُور سے ہم کو سمجھو گے کیا، پاس آکر تو دیکھو...
غزل
(منظر بھوپالی)
کوئی بچنے کا نہیں سب کا پتہ جانتی ہے
کس طرف آگ لگانا ہے ہوا جانتی ہے
اُجلے کپڑوں میں رہو یا کہ نقابیں ڈالو
تم کو ہر رنگ میں خلقِ خدا جانتی ہے
روک پائے گی نہ زنجیر نہ دیوار کوئی
اپنی منزل کا پتہ آہِ رسا جانتی ہے
ٹوٹ جاؤں گا، بکھر جاؤں گا، ہاروں گا نہیں
میری ہمت کو زمانے...
غزل
(منظر بھوپالی)
گئے تھے شوق سے ہم بھی یہ دنیا دیکھنے کو
مِلا ہم کو ہمارا ہی تماشا دیکھنے کو
کھڑے ہیں راہ چلتے لوگ کتنی خاموشی سے
سڑک پر مرنے والوں کا تماشا دیکھنے کو
بہت سے آئینہ خانے ہیں اس بستی میں لیکن
ترستی ہے ہماری آنکھ چہرہ دیکھنے کو
کمانوں میں کھنچے ہیں تیر، تلواریں چمکتی ہیں...