کھُل جائے ہم پہ بھید جو اس کائنات کا
ہوجائے ختم دہر میں مقصد حیات کا
کیا ڈھونڈتے ہیں جا کے ستاروں کے شہر میں
خود جن پہ انکشاف نہیں اپنی ذات کا
دیکھیں تو ہر ثواب پہ لالچ کا پیرہن
سوچیں تو ہر گناہ میں پہلو نجات کا
شبنم ہے توُ تو پھیل اسی وقت پھول پر
اب کون انتظار کرے آدھی رات کا...
کوئی تازہ کنول نہیںملتا
تیرا نعم البدل نہیں ملتا
اک حقیقت ہے دوستوں کا خلوص
ہاں مگر آج کل نہیں ملتا
ذہن حسّاس ہو تو دنیا میں
چین کا ایک پل نہیں ملتا
اے خدا مجھ کو دے میں سلجھا دوں
مشکلیں جن کا حل نہیں ملتا
چھان ماری ندیم بزمِ سخن
تیرا رنگِ غزل نہیں ملتا
رات رو رو کے سو گئیں آنکھیں
چہرہء غم کو دھو گئیں آنکھیں
نیند کے نیم سبز کھیتوں میں
فصل خوابوں کی بو گئیں آنکھیں
دیکھ کر سنگدل زمانے کو
خود بھی پتھر کی ہو گئیں آنکھیں
رنج و غم کے سفید دھاگے میں
سرخ موتی پرو گئیں آنکھیں
دل کی بینائی سے جلا کے چراغ
سفرِ دید کو گئیں آنکھیں
پھر...
جسم کو روح کو بینائی دے
تاکہ صورت تری دکھلائی دے
اجڑے شہروں کی حکایات سنوں
گونگے کھنڈرات کو گویائی دے
مجھ سے قبریں نہیںدیکھی جاتیں
دے مجھے اذنِ مسیحائی دے
دیکھ کر چہرہء اقدارِ قدیم
اِک نئ شکل کو زیبائی دے
ڈوب کر بحرِ معانی میں ندیم
سطحِ الفاظ کو گہرائی دے
خوب تر کی جسے تلاش نہیں
اُس پہ جینے کا راز فاش نہیں
روح کا انگ انگ زخمی ہے
جسم پر ایک بھی خراش نہیں
میں نے پا تو لیا خدا کو مگر
وہ میرا حاصلِ تلاش نہیں
خود تراشو مجسمے اپنے
زندگی دستِ بت تراش نہیں
گرچہ طوفاں ہے زیرِ آب ندیم
سطحِ دریا پہ ارتعاش نہیں
اٹھ کے کیا ہم تری گلی سے گئے
جان سے، دل سے، زندگی سے گئے
ہم نے اخلاص کی حدیں چھو لیں
دوست پھر بھی نہ دشمنی سے گئے
اِک کلی کے بدن کو چھو کر ہم
عمر بھر کے لئے ہنسی سے گئے
تیرے اِک شاہکار کی خاطر
اے خدا تیری بندگی سے گئے
بجھ گیا آس کا چراغ ندیم
ذہن و دل دونوں روشنی سے گئے
میں گلستاں میں نشیمن ہوں پھر بنانے کو
خبر کرو کسی بجلی کے تازیانے کو
متاعِ درد ملی ہے ہزار جتنوں سے
بہت سنبھال کے رکھا ہے اس خزانے کو
پکارتی ہے تمہیں بام و در کی تاریکی!
کبھی تو روشنی بخشو غریب خانے کو
کہو اندھیروں سے چاہیں تو راستہ روکیں
میں جا رہا ہوں چراغِ وفا جلانے کو
سوائے...
یاد یوں آئی اس کے آنچل کی
شاخ لہرائے جیسے صندل کی
تو بھی رویا ہے یاد کرکے ہمیں
کہہ رہی ہے لکیر کاجل کی
تیری آنکھوں پہ آکے ختم ہوا
ذکر قاتل کا، بات مقتل کی
پھول پر جیسے قطرہء شبنم
اُس بدن پر قمیض ململ کی
کتنا آرام دہ تھا اُس کا بدن
جیسے چادر سفید مخمل کی!
میرے نزدیک شعر کی...
جب تک اُمیدِ وصل کے صحراؤں میں رہا
اِک آبلہ جنوں کا مرے پاؤں میں رہا
یہ ہونٹ پھر بھی خشک رہے ریت کی طرح
گو میرا جِسم وصل کے دریاؤں میں رہا
کیسے پسند آئے اسے سایہء شجر
جو شخص گیسوؤں کی گھنی چھاؤں میں رہا
اس حوصلے کی داد تو دو دوستو مجھے
میں قتل کرنے والے مسیحاؤں میں رہا
دیکھیں نہ...