تیرے آنے کا احتمال رہا
مرتے مرتے یہی خیال رہا
غم ترا دل سے کوئی نکلے ہے
آہ ہر چند میں نکال رہا
ہجر کے ہاتھ سے ہیں سب روتے
یاں ہمیشہ کسے وصال رہا
شمع ساں جلتے بلتے کاٹی عمر
جب تلک سر رہا وبال رہا
مل گئے خاک میں ہی طفلِ سرشک
میں تو آنکھوں میں گرچہ پال رہا
سمجھیے اس قدر نہ کیجے غرور
کوئی بھی...
غزل
خواجہ محمد مِیر اثؔر دہلوی
لوگ کہتے ہیں یار آتا ہے
دِل تجھے اعتبار آتا ہے؟
دوست ہوتا جو وہ، تو کیا ہوتا
دُشمنی پر تو پیار آتا ہے
تیرے کوچے میں بیقرار تِرا
ہر گھڑی بار بار آتا ہے
زیرِ دِیوار تُو سُنے نہ سُنے
نام تیرا پُکار آتا ہے
حال اپنے پہ ،مجھ کو آپ اثؔر!
رحم بے اِختیار آتا ہے
خواجہ...
اشعارِ اثر
(اثر - تخلص ہے، میر محمد نام، شاہ جہاں آبادی ، چھوٹے بھائی تھے خواجہ میر درد مرحوم و مغفور رحمتہ اللہ علیہ کے، واقف تھے فن تصوف سے اورآگاہ تھے علم معرفت سے۔)
بے وفا تجھ سے اب گلا ہی نہیں
تو تو گویا کہ آشنا ہی نہیں
یا خدا پاس، یا بتاں کے پاس
دل کبھی اپنا یاں رہا ہی نہیں...