آیا جو موسمِ گل تو یہ حساب ہو گا
ہم ہوں گے، یار ہو گا، جامِ شراب ہو گا
نالوں سے اپنے اک دن وہ انقلاب ہو گا
دم بھر میں آسماں کا عالم خراب ہو گا
دکھلائیں گے تجھے ہم داغِ جگر کا عالم
منہ اس طرف کبھی تو اے آفتاب ہو گا
اے زاہدِ ریائی دیکھی نماز تیری
نیت اگر یہی ہے تو کیا ثواب ہو گا
وہ ردِ خلق ہوں...
دمبدم ساقی و مطرب کو صدا دیتے ہیں
موسمِ گُل میں ہم اِک دھوم مچا دیتے ہیں
جنسِ دل آپ گراں سمجھے ہیں اِک بوسے پر
دھیان اتنا نہیں کیا لیتے ہیں کیا دیتے ہیں
ہم وہ بسمل ہیں کہ ٹھنڈے نہیں ہوتے جب تک
دامنِ زخم سے قاتل کو ہوا دیتے ہیں
نزع میں ہوں مری بالیں سے نہ اٹھیے للہ
آپ کس وقت میں بندے کو دغا...
دکھائے رندوں کو نیرنگیِ شراب گھٹا
پئے گزک کرے طاؤس کو کباب گھٹا
گہ آئینہ ہوا، گہ دیدۂ پر آب گھٹا
کبھی بڑھا کبھی دریائے اضطراب گھٹا
عزیز آئے نہ رونے کو میری تربت پر
بہا کے اشک ہوئی داخلِ ثواب گھٹا
نہیں ہے حاجیوں کو مے کشی کی کیفیت
گئی حرم کو تو ہو گی بہت خراب گھٹا
سفر ہے باغِ جہاں گرزِ...
اُن کی رفتار سے دل کا عجب احوال ہوا
رُندھ گیا، پِس گیا، مٹی ہوا، پامال ہوا
دشت وحشت کا علاقہ مجھے امسال ہوا
داغ سودا، صفتِ نیّرِ اقبال ہوا
اس بکھیڑے سے الٰہی کہیں چھٹکارا ہو
عشقِ گیسو نہ ہوا، جان کا جنجال ہوا
نظرِ لطف نہ کی تو نے مرے رونے پر
طفلِ اشک اے مہِ خوبی نہ خوش اقبال ہوا...