میر حسن

  1. فرخ منظور

    میر حسن دل خدا جانے کس کے پاس رہا ۔ میر حسن

    دل خدا جانے کس کے پاس رہا ان دنوں جی بہت اُداس رہا کیا مزا مجھ کو وصل میں اُس کے میں رہا بھی تو بے حواس رہا یوں کھلا، اپنا یہ گُلِ اُمید کہ سدا دل پہ داغِ یاس رہا شاد ہوں میں کہ دیکھ میرا حال غیر کرنے سے التماس رہا جب تلک میں جیا حسنؔ تب تک غم مرے دل پہ بے قیاس رہا (میر حسنؔ)
  2. فرخ منظور

    میر حسن کب میں گلشن میں باغ باغ رہا ۔ میر حسن

    کب میں گلشن میں باغ باغ رہا میں تو جوں لالہ واں بھی داغ رہا جو کہ ہستی کو نیستی سمجھا اُس کو سب طرف سے فراغ رہا ہے یہ کس عندلیب کی تربت جس کا گُل ہی سدا چراغ رہا سیرِ گلشن کریں ہم اُس بن کیا اب نہ وہ دل نہ وہ دماغ رہا طبعِ نازک کے ہاتھ سے اپنے عمر بھر میں تو بے دماغ رہا دور میں تیرے تشنہ لب...
  3. فرخ منظور

    میر حسن رو رو کے کیا ابتر سب کام مرے دل کا ۔ میر حسن

    رو رو کے کیا ابتر سب کام مرے دل کا کھویا مری آنکھوں نے آرام مرے دل کا آغازِ محبت میں دیکھا تو یہ کچھ دیکھا کیا جانیے کیا ہو گا انجام مرے دل کا جس دن سے ہوا پیدا اُس دن سے ہوا شیدا دیوانہ و سودائی ہے نام مرے دل کا طوفان ہے زلفوں پر بہتان ہے کاکل پر ہے رشتہ اُلفت ہی پر دام مرے دل کا جب تک میں...
  4. فرخ منظور

    میر حسن دیکھ آئینہ میں عکسِ رخِ جانانہ جدا ۔ میر حسن

    دیکھ آئینہ میں عکسِ رخِ جانانہ جدا میں جدا محو ہوا اور دلِ دیوانہ جدا سرسری قصہ میں غیروں کے نہ سن میرا حال گوشِ دل سے کبھی سنیو مرا افسانہ جدا آہ کیا جانیے محفل میں یہ کس کی خاطر شمع روتی ہے جدا جلتا ہے پروانہ جدا شرکتِ شیخ و برہمن سے میں نکلا جب سے کعبہ سونا ہے جدا خالی ہے بتخانہ جُدا دور...
  5. فرخ منظور

    میر حسن قیامت مجھ پہ سب اس کا ترحم اور تظلم تھا ۔ میر حسن

    قیامت مجھ پہ سب اس کا ترحم اور تظلم تھا کبھی تھیں گالیاں منھ پر کبھی لب پر تبسم تھا یہ سب اپنے خیالِ خام تھے تم تھے پرے سب سے جو کچھ سمجھے تھے ہم تم کو یہ سب اپنا توہّم تھا اب اُلٹے ہم ہی اِس کے حکم میں رہنے لگے ناصح وہ دفتر ہی گیا جو اپنا اِس دل پر تحکم تھا تمھیں بھی یاد آتے ہیں کبھی وے دن...
  6. فرخ منظور

    میر حسن نے ہوں چمن کا مائل نے گل کے رنگ و رُو کا ۔ میر حسن

    نے ہوں چمن کا مائل نے گل کے رنگ و رُو کا رنگِ وفا ہو جس میں بندہ ہوں اُس کی بو کا وہ ملکِ دل کہ اپنا آباد تھا کبھو کا سو ہو گیا ہے تجھ بن اب وہ مقام ہُو کا مت سہم دل مبادا یہ خون سوکھ جاوے آتا ہے تیر اس کا پیاسا ترے لہو کا غنچہ ہوں میں نہ گل کا نے گل ہوں میں چمن کا حسرت کا زخم ہوں میں اور داغ...
  7. فرخ منظور

    میر حسن ہوا سے زلف و رخ میں ہے سماں اے یار رونے کا ۔ میر حسن

    ہوا سے زلف و رخ میں ہے سماں اے یار رونے کا بندھا ہے شام سے لے تا سحر اک تار رونے کا خدا جانے کہ آخر رفتہ رفتہ حال کیا ہوئے ہوا ہے بے طرح آنکھوں کو کچھ آزار رونے کا ابھی گر لہر آوے گی مجھے تو دنگ ہوئے گا نہ کر ابر تو آگے مرے اظہار رونے کا اثر ہوئے نہ ہوئے پر بلا سے جی تو بہلے گا نکالا شغلِ...
  8. فرخ منظور

    میر حسن زنگِ الم کا صیقل ہو کیوں نہ یار رونا ۔ میر حسن

    زنگِ الم کا صیقل ہو کیوں نہ یار رونا روشن دلی کا باعث ہے شمع وار رونا جس جا پہ تم نے باتیں کی تھیں کھڑے ہو اک دن جب دیکھنا وہ جاگہ بے اختیار رونا آ لینے دے یہاں تک اُس گل کو ٹک تو رہ جا پھر ساتھ میرے مل کر ابرِ بہار رونا تو آ کے آستیں رکھ اس چشمِ تر پہ میری پاوے جہاں میں میرا تا اشتہار رونا...
  9. فرخ منظور

    میر حسن عشق کب تک آگ سینہ میں مِرے بھڑکائے گا ۔ میر حسن

    عشق کب تک آگ سینہ میں مِرے بھڑکائے گا راکھ تو میں ہو چکا کیا خاک اب سُلگائے گا لے چلی ہے اب تو قسمت تیرے کوچہ کی طرف دیکھیے پھر بھی خدا اس طرف ہم کو لائے گا کر چکے صحرا میں وحشت پھِر چکے گلیوں میں ہم دیکھیے اب کام ہم کو عشق کیا فرمائے گا نو گرفتاری کے باعث مضطرب صیّاد ہوں لگتے لگتے جی قفس میں...
  10. فرخ منظور

    میر حسن کروں شکوہ تو بے وسواس میں اُس سے نہ آنے کا ۔ میر حسن

    کروں شکوہ تو بے وسواس میں اُس سے نہ آنے کا نہ ہو دھڑکا مرے دل میں گر اُس کے روٹھ جانے کا وساطت سے کسی کی چھپ کے بھی چاہا نہ کچھ ورنہ کیا تھا ڈھب تو یاروں نے بہت اُس سے ملانے کا ترے پہلو سے اُٹھ جانے کا جتنا ہے الم ہم کو نہیں اتنا تو غم اپنے تئیں دل کے بھی جانے کا مجھے آتا ہے رونا دیکھ کر زانو...
  11. فرخ منظور

    میر حسن تیرا حسنؔ یہ رونا یونہی اگر رہے گا ۔ میر حسن

    تیرا حسنؔ یہ رونا یونہی اگر رہے گا ظالم تو پھر کسی کا کاہے کو گھر رہے گا تیرے ہی غم کا گھر ہے یہ دل جلا نہ اِس کو گر یہ جلا تو تیرا پھر غم کدھر رہے گا تربت پہ بے کسوں کی رکھیو نہ پھول کوئی گُل کی جگہ اُنھوں کا داغِ جگر رہے گا آنا ہے گر تو آ جا جلدی وگرنہ یہ دل یونہی تڑپ تڑپ کر کوئی دم میں مر...
  12. فرخ منظور

    میر حسن چھوٹا نہ واں تغافل اُس اپنے مہرباں کا ۔ میر حسن

    چھوٹا نہ واں تغافل اُس اپنے مہرباں کا اور کام کر چکا یاں یہ اضطراب جاں کا اُٹھتے ہی دل جگر میں کیا آگ سی لگا دی خانہ خراب ہووے اس نالہ و فغاں کا وے دن گئے جو گلشن تھا بود و باش اپنا اب تو قفس میں بھولے نقشہ بھی گلستاں کا سامان لے چلا ہے اندوہ کا یہیں سے کیا جانیے ارادہ دل نے کیا کہاں کا...
  13. فرخ منظور

    میر حسن گر عشق سے کچھ مجھ کو سروکار نہ ہوتا ۔ میر حسن

    گر عشق سے کچھ مجھ کو سروکار نہ ہوتا تو خوابِ عدم سے کبھی بیدار نہ ہوتا یارب میں کہاں رکھتا ترا داغِ محبت پہلو میں اگر میرے دلِ زار نہ ہوتا دنیا میں تو دیکھا نہ سوائے غم و اندوہ میں کاشکے اِس بزم میں ہشیار نہ ہوتا یوں نالہ پریشاں نہ نکلتا یہ کبھی آہ سینے میں جو میرا یہ دل افگار نہ ہوتا خمیازے...
  14. فرخ منظور

    میر حسن وہ پیار اب رہا نہ ترا اور نہ چاہ وہ ۔ میر حسنؔ

    وہ پیار اب رہا نہ ترا اور نہ چاہ وہ باتیں ہی ایک رہ گئیں کہنے کو آہ وہ پوچھا جو حال اُس نے تو میں اور چپ ہوا تا ضد میں آ کے لگ ہی پڑے خواہ مخواہ وہ بے چین ہم کو آپ ہی کرتا ہے ناز سے رکھتا ہے اور سر پہ ہمارے گناہ وہ کہیو صبا کہ جسکو تو بٹھلا گیا تھا سو جوں نقشِ پا پڑا تری دیکھے ہے راہ وہ مدت...
  15. شمشاد

    دیوانِ میر حسن

    کنز تحتُ العرش مَفَاتِیحہَاَ الَسِنَتِہ الشُعراِئُ الحمد للہ والمنہ کہ درین زمن بفضل رب ذو المنن مجموعۃ کلام مصداق الشعر حسنہ حسن اعنے دیوانِ میر حسن نتیجہ فکر اُستاد فن شاعر یکناے زمن بدرمنیر سپہر سخن جناب میر غلام حسن صاحب حسن مرحوم بمطبع منشی نوک شو و ارقع لکھنؤ مزین بہ زیور...
  16. فرخ منظور

    دیوان میر حسن ڈاؤنلؤد کریں ۔

    دیوان میر حسن (میر انیس کے دادا اور میر خلیق کے والد) ڈاؤنلوڈ کریں۔ http://www.archive.org/details/divanimirhasan00asanuoft
  17. فرخ منظور

    میر حسن سیر ہے تجھ سے مری جان، جدھر کو چلئے ۔ میر حسن

    غزل بشکریہ محمد وارث صاحب۔ غزل از میر حسن سیر ہے تجھ سے مری جان، جدھر کو چلئے تو ہی گر ساتھ نہ ہووے تو کدھر کو چلئے خواہ کعبہ ہو کہ بت خانہ غرض ہم سے سن جس طرف دل کی طبیعت ہو، ادھر کو چلئے زلف تک رخ سے نگہ جاوے نہ اک دن کے سوا شام کو پہنچئے منزل جو سحر کو چلئے جب میں چلتا ہوں ترے کوچہ سے...
Top