غزل
ہر تِیر، جو ترکش میں ہے، چل جائے تو ا چھّا
حسر ت مِر ے دُ شمن کی نِکل جائے تو ا چھّا
فر د ا کے حَسِیں خو ا ب دِ کھا ئے ،کہ مِر ا دِ ل
خُو ش ر نگ کھلو نو ں سے بہل جائے تو ا چھّا
ڈالے گئے اِس واسطے پتّھر میرے آگے
ٹھو کر سے ا گر ہو ش سنبھل جا ئے تو اچھّا
یہ سا نس کی ڈ و ر ی بھی جو کٹ جا...
غزل
ا ب یقیں اُس کی محبّت کا بَھلا کیسے ہو
آ ج تک جس نے نہ اِ تنا بھی کہا، کیسے ہو
عِشق کی ریشمی ڈوری کی لگی ہیں گرہیں
مُرغِ پَربستہ اَسیر ی سے رہا کیسے ہو
چاند کا عکس مجازی ہے، نہ ہاتھ آئے گا
دِل، اگر ضد بھی کرے دِل کا کہا کیسے ہو
اصل تو اپنی جگہ، سُود میں جاں ما نگتے ہیں !
زندہ رہتے ہُو ئے...
کرتے ہو گلی کوچوں کو تاریک بھی خود ہی
پھر روشنی کی بانٹتے ہو بھیک بھی خود ہی
رسی جو نہیں کھنچتا ظالم کی کسی طور
آجاتی ہے پھر سوچ میں تشکیک بھی خود ہی
بِن بات جو وہ خود ہی بگڑ بیٹھا ہے ہم سے
اک روز وہ ہو جائے گا پھر ٹھیک بھی خود ہی
ہوتا ہے وہ بیدار تو رہتا ہے کشیدہ
خوابوں میں چلا آتا...
ملتے ہی خود کو آپ سے وابستہ کہہ دیا
محسوس جو کیا وہی برجستہ کہہ دیا
میں چپ ہُوا تو زخم مرے بولنے لگے
سب کچھ زبانِ حال سے لب بستہ کہہ دیا
خورشیدِ صبحِ نو کو شکایت ہے دوستو
کیوں شب سے ہم نے صبح کو پیوستہ کہہ دیا
چلتا رہا تو دشت نوردی کا طنز تھا
ٹھرا ذرا تو آپ نے پا بستہ کہہ دیا
دیکھا تو...