آنکھ برسی ہے ترے نام پہ ساون کی طرح
جسم سلگا ہے تری یاد میں ایندھن کی طرح
لوریاں دی ہیں کسی قرب کی خواہش نے مجھے
کچھ جوانی کے بھی دن گزرے ہیں بچپن کی طرح
اس بلندی سے مجھے تو نے نوازا کیوں تھا
گر کے میں ٹوٹ گیا کانچ کے برتن کی طرح
مجھ سے ملتے ہوئے یہ بات تو سوچی ہوتی
میں ترے دل میں سماجاؤں گا...
اک بار ہی جی بھر کے سزا کیوں نہیں دیتے
گر حرفِ غلط ہوں تو مٹا کیوں نہیں دیتے
ایسے ہی اگر مونس و غم خوار ہو میرے
یارو مجھے مرنے کی دعا کیوں نہیں دیتے
اب شدتِ غم سے مرا دم گھٹنے لگا ہے
تم ریشمی زلفوں کی ہوا کیوں نہیں دیتے
فردا کے دھندلکوں میں مجھے ڈھونڈنے والو
ماضی کے دریچوں سے صدا کیوں نہیں...
غزل
کر کے مد ہو ش ہمَیں نشّۂ ہم د و شی میں
عہد و پیما ن کئے، غیر سے سر گو شی میں
ا ِس سے آ گے، جو کو ئی با ت تِر ے با ب میں کی
شِر ک ہو جا ئے گا، پھر ہم سے سُخن کو شی میں
ز خمۂ فکر سے چِھڑ نے لگے ا حسا س کے تا ر
نغمے کیا کیا نہ سُنے، عر صۂ خا مو شی میں
ا پنے د ا من کے گنِو د ا غ، یہ جب ہم...
غزل
ہر تِیر، جو ترکش میں ہے، چل جائے تو ا چھّا
حسر ت مِر ے دُ شمن کی نِکل جائے تو ا چھّا
فر د ا کے حَسِیں خو ا ب دِ کھا ئے ،کہ مِر ا دِ ل
خُو ش ر نگ کھلو نو ں سے بہل جائے تو ا چھّا
ڈالے گئے اِس واسطے پتّھر میرے آگے
ٹھو کر سے ا گر ہو ش سنبھل جا ئے تو اچھّا
یہ سا نس کی ڈ و ر ی بھی جو کٹ جا...
غزل
ضبط کرتے رہیں حالِ دلِ مضطر نہ کہیں
یہ بھی ہے پاسِ وفا ، تجھ کو ستمگر نہ کہیں
ہم جو کہتے ہیں نشے میں ، ہمیں کہہ لینے دو
عین ممکن ہے کہ پھر ہوش میں آ کر نہ کہیں
بات اتنی ہے کہ ہم اذنِ تکلم چاہیں
آپ کے حلقہ نشیں بات بڑھا کر نہ کہیں
گونج اپنی سہی ، تائید میں آواز تو ہے
کیوں ترے...
آنکھ برسی ہے ترے نام پہ ساون کی طرح
جسم سلگا ہے تری یاد میں ایندھن کی طرح
لوریاں دی ہیں کسی قرب کی خواہش نے مجھے
کچھ جوانی کے بھی دن گزرے ہیں بچپن کی طرح
اس بلندی سے مجھے تو نے نوازا کیوں تھا
گر کے ٹوٹ گیا کانچ کے برتن کی طرح
مجھ سے ملتے ہوئے یہ بات تو سوچی ہوتی
میں ترے دل میں...
کرتے ہو گلی کوچوں کو تاریک بھی خود ہی
پھر روشنی کی بانٹتے ہو بھیک بھی خود ہی
رسی جو نہیں کھنچتا ظالم کی کسی طور
آجاتی ہے پھر سوچ میں تشکیک بھی خود ہی
بِن بات جو وہ خود ہی بگڑ بیٹھا ہے ہم سے
اک روز وہ ہو جائے گا پھر ٹھیک بھی خود ہی
ہوتا ہے وہ بیدار تو رہتا ہے کشیدہ
خوابوں میں چلا آتا...
ملتے ہی خود کو آپ سے وابستہ کہہ دیا
محسوس جو کیا وہی برجستہ کہہ دیا
میں چپ ہُوا تو زخم مرے بولنے لگے
سب کچھ زبانِ حال سے لب بستہ کہہ دیا
خورشیدِ صبحِ نو کو شکایت ہے دوستو
کیوں شب سے ہم نے صبح کو پیوستہ کہہ دیا
چلتا رہا تو دشت نوردی کا طنز تھا
ٹھرا ذرا تو آپ نے پا بستہ کہہ دیا
دیکھا تو...