غزلِ
مُرتضیٰ برلاس
موج درموج نظر آتا تھا سیلاب مجھے
پاؤں ڈالا تو یہ دریا لگا پایاب مجھے
شدّتِ کرب سے کُمھلا گئے چہرے کے خطوُط
اب نہ پہچان سکیں گے مِرے احباب مجھے
ایک سایہ، کہ مجھے چین سے سونے بھی نہ دے
ایک آواز کہ ، کرتی رہے بیتاب مجھے
جس کی خواہش میں کسی بات کی خواہش نہ رہے
ایسی...