رہی نگفتہ مرے دل میں داستاں میری
نہ اس دیار میں سمجھا کوئی زباں میری
بہ رنگِ صوتِ جرس تجھ سے دور ہوں تنہا
خبر نہیں ہے تجھے آہ کارواں میری
ترے نہ آج کے آنے میں صبح کے مجھ پاس
ہزار جائے گئی طبعِ بدگماں میری
شب اُس کے کُوچے میں جاتا ہوں اس توقع پر
کہ ایک دوست ہے واں خوابِ پاسباں میری
اُسی...