غزل
خِزاں کے جَور سے واقف کوئی بہار نہ ہو
کسی کا پَیرَہَنِ حُسن تار تار نہ ہو
برنگِ سبزۂ بیگانہ روند ڈالے فلک
مجھے، بہار بھی آئے تو ساز گار نہ ہو
خِزاں کے آتے ہی گلچیں نے پھیر لیں آنکھیں
کسی سے کوئی وَفا کا اُمِیدوار نہ ہو
ٹھہر ٹھہر دلِ وحشی، بہار آنے دے
ابھی سے بہر خُدا اِتنا بے قرار نہ ہو...
غزل
من کہ بر نمی تابم دردِ زیستن تنہا
صبح دم چساں بینم شمعِ انجمن تنہا
ترجمہ :میں کہ جینے کے درد کو تنہا برداشت نہیں کر پاتا، صبح دم کس طرح شمعِ انجمن کو تنہا دیکھوں.
تا کجا اماں یابد از ہجومِ جاں بازاں
گوشہ گیرِ فانوسے ، بہرِ سوختن تنہا
ترجمہ :کب تک جاں بازوں کے ہجوم سے گوشہ گیرِ فانوس...