مرزا اسد اللہ خان غالب

  1. فرحان محمد خان

    غالب منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی - مرزا اسد اللہ خان غالب

    منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی قسمت کھلی ترے قد و رخ سے ظہور کی اک خوں چکاں کفن میں کروڑوں بناؤ ہیں پڑتی ہے آنکھ تیرے شہیدوں پہ حور کی واعظ! نہ تم پیو نہ کسی کو پلا سکو کیا بات ہے تمہاری شرابِ طہور کی! لڑتا ہے مجھ سے حشر میں قاتل، کہ کیوں اٹھا؟ گویا ابھی سنی نہیں آواز صور کی آمد بہار...
  2. فرحان محمد خان

    غالب عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا - مرزا اسد اللہ خان غالب

    عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا تجھ سے، قسمت میں مری، صورتِ قفلِ ابجد تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا دل ہوا کشمکشِ چارۂ زحمت میں تمام مِٹ گیا گھِسنے میں اُس عُقدے کا وا ہو جانا اب جفا سے بھی ہیں محروم ہم اللہ اللہ اس قدر دشمنِ اربابِ وفا ہو...
  3. فرحان محمد خان

    غالب ہے بسکہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور -مرزا اسد اللہ خان غالب

    ہے بسکہ ہر اک اُن کے اشارے میں نشاں اور کرتے ہیں محبّت تو گزرتا ہے گماں اور یا رب وہ نہ سمجھے ہیں، نہ سمجھیں گے مری بات دے اور دل ان کو، جو نہ دے مجھ کو زباں اور ابرو سے ہے کیا اس نگہِ ناز کو پیوند ہے تیر مقرّر مگر اس کی ہے کماں اور تم شہر میں ہو تو ہمیں کیا غم، جب اٹھیں گے لے آئیں...
  4. فرحان محمد خان

    غالب مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے - مرزا اسد اللہ خان غالب

    مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے جوشِ قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے کرتا ہوں جمع پھر جگرِ لخت لخت کو عرصہ ہوا ہے دعوتِ مژگاں کیے ہوئے پھر وضعِ احتیاط سے رکنے لگا ہے دم برسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کیے ہوئے پھر گرمِ نالہ ہائے شرر بار ہے نفس مدت ہوئی ہے سیرِ چراغاں کیے ہوئے پھر پرسشِ جراحتِ...
  5. فرحان محمد خان

    غالب "ذکر میرا بہ بدی بھی اسے منظور نہیں"

    ذکر میرا بہ بدی بھی اسے منظور نہیں غیر کی بات بگڑ جائے تو کچھ دور نہیں وعدۂ سیر گلستاں ہے خوشا طالع شوق مژدۂ قتل مقدر ہے جو مذکور نہیں شاہد ہستی مطلق کی کمر ہے عالم لوگ کہتے ہیں کہ ہے پر ہمیں منظور نہیں قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا لیکن ہم کو تقلید تنک ظرفی منصور نہیں حسرت اے ذوق...
  6. فرخ منظور

    غالب سیرِ آنسوئے تماشا ہے طلب گاروں کا ۔ مرزا غالب

    سیرِ آنسوئے تماشا ہے طلب گاروں کا خضر مشتاق ہے اس دشت کے آواروں کا سر خطِ بند ہوا، نامہ گنہگاروں کا خونِ ہُدہُد سے لکھا نقش گرفتاروں کا فرد آئینہ میں بخشیں شکنِ خندۂ گُل دلِ آزردہ پسند، آئینہ رخساروں کا داد خواہِ تپش و مہر خموشی بر لب کاغذِ سرمہ ہے جامہ، تیرے بیماروں کا وحشتِ نالہ، بہ...
  7. مزمل شیخ بسمل

    غالب گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیوں کر ہو

    غزل گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیوں کر ہو کہے سے کچھ نہ ہوا، پھر کہو تو کیوں کر ہو ہمارے ذہن میں اس فکر کا ہے نام وصال کہ گر نہ ہو تو کہاں جائیں؟ ہو تو کیوں کر ہو ادب ہے اور یہی کشمکش، تو کیا کیجے حیا ہے اور یہی گومگو تو کیوں کر ہو تمہیں کہو کہ گزارا صنم پرستوں کا بتوں کی ہو اگر ایسی ہی خو تو...
  8. فرخ منظور

    مہدی حسن دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں ۔ مہدی حسن

    دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں گلوکار: مہدی حسن شاعر: مرزا غالب دائم پڑا ہُوا ترے در پر نہیں ہُوں میں خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہُوں میں کیوں گردشِ مدام سے گبھرا نہ جائے دل انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہُوں میں یا رب، زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے؟ لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرّر نہیں ہُوں...
  9. جہانزیب

    دل ہی تو ہے ۔ کلام غالب بزبان شفقت امانت علی خان

    عید کے موقع پر پی ٹی وی پر یہ غزل سننے کا اتفاق ہوا تھا، تب سے اس کی تلاش میں‌تھا آج مل گئی ۔:lovestruck:
  10. فرخ منظور

    غالب کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے ۔ مرزا غالب

    آج بیٹھے بیٹھے اس غزل کا مطلع ذہن کے دیوار و در سے سر ٹکرانے لگا۔ اور دل چاہا پوری غزل ہی شئیر کی جائے۔ کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے جس میں کہ ایک بیضۂ مور آسمان ہے ہے کائنات کو حَرَکت تیرے ذوق سے پرتو سے آفتاب کے ذرّے میں جان ہے حالانکہ ہے یہ سیلیِ خارا سے لالہ رنگ غافل کو میرے شیشے پہ...
  11. محمد وارث

    مثنوی 'اشتہار پنج آہنگ' از مرزا غالب

    غالب کی ایک مثنوی 'قادر نامہ' ویب کی دنیا میں پہلی بار پیش کرنے کے بعد 'نسخۂ مہر' سے غالب کی ایک اور مثنوی لکھ رہا ہوں کہ یہ بھی ویب پر 'غیر مطبوعہ' ہے۔ تعارف 'پنج آہنگ' غالب کی فارسی نثر کی کتاب ہے اور پانچ حصوں پر مشتمل ہے جس میں غالب نے القاب و آداب، لغاتِ فارسی، اشعارِ مکتوبی، تقاریظ اور...
  12. محمد وارث

    مثنوی 'قادر نامہ' از غالب (ویب کی دنیا میں پہلی بار)

    یہ مثنوی 'ہفتۂ شعر و ادب' 22 تا 28 جولائی 2009ء کے سلسلے کیلیے خاص طور پر منتخب کی گئی ہے۔ ----------- ویب کی دنیا میں غالب کے اردو کلام کا شاید ہی کوئی حصہ ہوگا جو موجود نہ ہو لیکن جو مثنوی میں آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں وہ ویب کی دنیا میں پہلی بار پیش ہو رہی ہے، میرے لیے یہ سعادت تو ہے...
  13. فرخ منظور

    غالب طائرِ دل - مرزا غالب

    طائرِ دل اٹھا اک دن بگولا سا جو کچھ میں جوشِ وحشت میں پھرا آسیمہ سر، گھبراگیا تھا جی بیاباں سے نظر آیا مجھے اک طائرِ مجروح پَر بستہ ٹپکتا تھا سرِ شوریدہ دیوارِ گلستاں سے کہا میں نے کہ "او گمنام! آخر ماجرا کیا ہےَ پڑا ہے کام تجھ کو کس ستم گر آفتِ جاں سے" ہنسا کچھ کھلکھلا کر پہلے، پھر...
Top