غزل
(مرزا محمد رفیع دہلوی سودا)
باتیں کِدھر گئیں وہ تِری بھولی بھالِیاں؟
دِل لے کے بولتا ہَے، جو اَب تو، یہ بولِیاں
ہر بات ہَے لطیفہ و ہر یک سُخن ہَے رمز
ہر آن ہَے کِنایہ و ہر دم ٹھٹھولِیاں
حَیرت نے، اُس کو بند نہ کرنے دیں پِھر کبھو
آنکھیں، جب آرسی نے، تِرے مُنہ پہ کھولِیاں
کِس نے کیا...
غزل
(مرزا محمد رفیع دہلوی متخلص بہ سوداؔ)
چہرے پہ نہ یہ نقاب دیکھا
پردے میں تھا آفتاب دیکھا
کُچھ مَیں ہی نہیں ہوں، ایک عالم
اُس کے لیے یاں خراب دیکھا
بے جُرم و گناہ، قتلِ عاشِق
مذہب میں تِرے ثواب دیکھا
جِس چشم نے مُجھ طرف نظر کی
اُس چشم کو میں پُرآب دیکھا
بھوَلا ہے وہ دِل سے لُطف اُس کے...
غزل
(مرزا محمد رفیع دہلوی متخلص بہ سوداؔ)
بولو نہ بول شیخ جی ہم سے کڑے کڑے
یہاں چٹ کیئے ہیں اس سے عمامہ بڑے بڑے
کیا میکدے میں آ کے چومے گا محتسب؟
پیوینگے اُس کی ضد سے تو اب ہم گھڑے گھڑے
قامت نے تیرے باغ میں جا خطِ بندگی
لکھوا لیا ہے سردِ چمن سے کھڑے کھڑے
ملجا گلے سے...
غزل
(مرزا محمد رفیع دہلوی تخلص بہ سودا)
کس سے بیاں کیجئے؟ حال دلِ تباہ کا،
سمجھے وہی اسے جو ہو زخمی تیری نگاہ کا
مجھ کو تیری طلب ہے یار تجھ کو ہے چاہ غیر کی
اپنی نظر میںیاں نہیں طور کوئی نباہ کا
دین و دل و قرار و صبر عشق میںتیرے کھو چکے
جیتے جو اب کہ ہم بچے نام...