گر تجھ میں ہے وفا تو جفا کار کون ہے
دل دار تو ہوا تو دل آزار کون ہے
نالاں ہوں مدتوں سے ترے سائے کے تلے
پوچھا نہ یہ کبھو پسِ دیوار کون ہے
ہر شب شراب خوار ہر اک دن سیاہ ہے
آشفتہ زلف و لٹپٹی دستار کون ہے
ہر آن دیکھتا ہوں میں اپنے صنم کو شیخ
تیرے خدا کا طالبِ دیدار کون ہے
سوداؔ کو جرمِ عشق سے...
غزل
اب کے بھی دن بہار کے یوں ہی چلے گئے
پھر پھر گُل آ چکے پہ سجن تم بھلے گئے
پوچھے ہے پھول و پھل کی خبر اب تُو عندلیب
ٹوٹے، جھڑے، خزاں ہوئی، پھولے پھلے گئے
دل خواہ کب کسی کو زمانے نے کچھ دیا
جن کو دیا کچھ اس میں سے وے کچھ نہ لے گئے
اے شمع، دل گداز کسی کا نہ ہو کہ شب
پروانہ داغ تجھ سے ہوا، ہم...
جب یار نے اٹھا کر زلفوں کے بال باندھے
تب میں نے اپنے دل میں لاکھوں خیال باندھے
دو دن میں ہم تو ریجھے اے وائے حال ان کا
گزرے ہیں جن کے دل کو یاں ماہ و سال باندھے
تارِ نگہ میں اس کے کیونکر پھنسے نہ یہ دل
آنکھوں نے جس کے لاکھوں وحشی غزال باندھے
جو کچھ ہے رنگ اس کا سو ہے نظر میں اپنی
گو...
بہار بے سپرِ جامِ یار گزرے ہے
نسیم تیر سی چھاتی کے پار گزرے ہے
شراب، حلق سے ہوتی نہیں فرو تجھ بِن
گلوئے خشک سے تیغ آبدار گزرے ہے
گزر مِرا تِرے کوچے میں گو نہیں تو نہ ہو
مِرے خیال میں تُو لاکھ بار گزرے ہے
سمجھ کے قطع کر اب پیرہن مِرا خیّاط
نظر سے چاک کے یاں تار تار گزرے ہے
ہزار حرف شکایت کا،...
اِس چمن کی سیر میں آ یار پِیویں مِل کے مُل
کیا بنائے صانعِ قدرت نے رنگیں گِل کے گُل
یہ نہ ہو دریا کہ جس سے گذریے پُل باندھ کر
موجِ چشمِ عاشقاں دے توڑ پَل میں پِل کے پُل
قتل کا کس کے کیا ہے آج ان انکھیوں نے عزم
کھینچ کر تیغے رہے ہیں ابرُو اس قاتِل کے تُل
عہد میں تجھ حُسن کے جس کو ہوا ہے...
مقدور نہیں اس کی تجلّی کے بیاں کا
جوں شمع سراپا ہو اگر صرف زباں کا
پردے کو تعیّن کے درِ دل سے اٹھا دے
کھلتا ہے ابھی پل میں طلسماتِ جہاں کا
ٹک دیکھ صنم خانہء عشق آن کے اے شیخ
جوں شمعِ حرم رنگ جھمکتا ہے بتاں کا
اس گلشنِ ہستی میں عجب دید ہے، لیکن
جب چشم کھلے گُل کی تو موسم ہوں خزاں کا
دکھلائیے...
جو چلن چلتے ہو تم کیا اُس سے حاصل ہوئے گا
خوں سے بہتوں کے غبار اس راہ کا گُل ہوئے گا
کیوں نہ کہتے تھے دلا شیریں لبوں کے منہ نہ لگ
ایک دن تجھ کو یہ شربت زہرِ قاتل ہوئے گا
چاک پر تیرے جو اب پھرتا ہے کوزہ اے کلال
یہ کبھو ہم سے کسی سرگشتہ کا دل ہوئے گا
شرح اپنی بے قراری کی لکھیں گے ہم اگر
نامہ...
چھَٹنا ضرور مکھ پہ ہے زلفِ سیاہ کا
روشن بغیر شام نہ چہرہ ہو ماہ کا
جل کر تُو اے پتنگ گرا پائے شمع پر
ہوں داغ، عذر دیکھ کے تیرے گناہ کا
جوں سایہ اس چمن میں پھرا میں تمام عمر
شرمندہ پا نہیں مرا برگِ گیاہ کا
تاراج چشمِ ترکِ بتاں کیوں نہ ہو یہ دل
غارت کرے ہے ملک کو فرقہ سپاہ کا
اے آہِ شعلہ...
ہندو ہیں بُت پرست، مسلماں خدا پرست
پوجوں میں اُس کسی کو جو ہو آشنا پرست
اس دور میں گئی ہے مروّت کی آنکھ پھُوٹ
معدوم ہے جہان سے چشمِ حیا پرست
دیکھا ہے جب سے رنگِ گفک تیرے پاؤں میں
آتش کو چھوڑ گبر ہوئے ہیں حنا پرست
چاہے کہ عکسِ دوست رہے تجھ میں جلوہ گر
آئینہ وار دل کو رکھ اپنے صفا پرست...
غیر کے پاس یہ اپنا ہی گماں ہے کہ نہیں؟
جلوہ گر یار مرا ورنہ کہاں ہے کہ نہیں؟
مہر ہر ذرے میں مجھ کو ہی نظر آتا ہے
تم بھی ٹک دیکھو تو صاحب نظراں ہے کہ نہیں؟
پاسِ ناموس مجھے عشق کا ہے اے بلبل
ورنہ یاں کون سا اندازِ فغاں ہے کہ نہیں؟
دل کے ٹکڑوں کو بغل بیچ لیے پھرتا ہوں
کچھ علاج ان کا بھی اے...
محتسب آیا بزم میں، ساقی لے آ شراب کو
یہ نہ سمجھ کہ شب پرک دیکھے گی آفتاب کو
آنکھوں کا میری ان دنوں، یارو ہے طرفہ ماجرا
میں تو روؤں ہوں اُن کے تئیں ہنستی ہیں یہ سحاب کو
دم ہی رہا یہ پیرہن، تن تو ہو اشک بہہ گیا
جن نے نہ دیکھا ہو مجھے، دیکھے وہ جا حباب کو
پند سے تیری زاہدا ! حال مرا یہ مے سے ہے...
اس غزل سے متاثر ہو کر (نذرِ سودا) کے عنوان سے فیض نے بھی ایک غزل لکھی تھی جو فیض کے مجموعہ دستِ صبا میں موجود ہے۔
کیوں میں تسکینِ دل، اے یار! کروں یا نہ کروں؟
نالہ جا کر پسِ دیوار کروں یا نہ کروں؟
سن لے اک بات مری تو کہ رمق باقی ہے
پھر سخن تجھ سے ستم گار کروں یا نہ کروں؟
ناصحا! اُٹھ...
غزل
زہے وہ معنیِ قرآں، کہے جو تُو واعظ
پھٹے دہن کے تئیں اپنے، کر رفو واعظ
مجھے یہ فکر ہے تُو اپنی ہرزہ گوئی کا
جواب دیوے گا کیا حق کے روبرو واعظ
خدا کے واسطے چپ رہ، اتر تُو منبر سے
حدیث و آیہ کو مت پڑھ توُ بے وضو واعظ
سنا کسی سے تُو نامِ بہشت، پر تجھ کو
گلِ بہشت کی پہنچی نہیں ہے بُو واعظ...
جی مرا مجھ سے یہ کہتا ہے کہ ٹل جاؤں گا
ہاتھ سے دل کے ترے اب میں نکل جاؤں گا
لطف اے اشک کہ جوں شمع گھُلا جاتا ہوں
رحم اے آہِ شرر بار! کہ جل جاؤں گا
چین دینے کا نہیں زیرِ زمیں بھی نالہ
سوتوں کی نیند میں کرنے کو خلل جاؤں گا
قطرہء اشک ہوں پیارے، مرے نظّارے سے
کیوں خفا ہوتے ہو، پل مارتے ڈھل جاؤں...
غزل
(مرزا محمد رفیع دہلوی متخلص بہ سوداؔ)
بولو نہ بول شیخ جی ہم سے کڑے کڑے
یہاں چٹ کیئے ہیں اس سے عمامہ بڑے بڑے
کیا میکدے میں آ کے چومے گا محتسب؟
پیوینگے اُس کی ضد سے تو اب ہم گھڑے گھڑے
قامت نے تیرے باغ میں جا خطِ بندگی
لکھوا لیا ہے سردِ چمن سے کھڑے کھڑے
ملجا گلے سے...
غزل
(مرزا محمد رفیع دہلوی متخلص بہ سوداؔ)
یہ میں بھی سمجھوں ہوں یارو، وہ یار یار نہیں
کروں میں کیا کہ مرا دل پہ اختیار نہیں
عبث تو سر کی مرے ہر گھڑی قسم مت کھا
قسم خدا کی ترے دل میں اب وہ پیار نہیں
میں ہوں وہ نخل کہ جس نخل کو قیامت تک
بہار کیسی ہی آوے تو برگ و...
غزل
(مرزا محمد رفیع دہلوی تخلص بہ سودا)
کس سے بیاں کیجئے؟ حال دلِ تباہ کا،
سمجھے وہی اسے جو ہو زخمی تیری نگاہ کا
مجھ کو تیری طلب ہے یار تجھ کو ہے چاہ غیر کی
اپنی نظر میںیاں نہیں طور کوئی نباہ کا
دین و دل و قرار و صبر عشق میںتیرے کھو چکے
جیتے جو اب کہ ہم بچے نام...
غزل
بس ہو تو رکھوں آنکھوں میں اُس آفتِ جاں کو
اور دیکھنے دوں میں نہ زمیں کو نہ زماں کو
جب عزم کروں گھر سے کوئے دوست کا یارو
دشمن ہے مرا وہ جو کہے یہ کہ "کہاں کو؟"
موجب مری رنجش کا جو پوچھے ہے تو یہ جان
مُوندوں گا نہ پھر کھول کے جوں غنچہ دہاں کو
ابرو نے، مژہ نے، نگہِ یار نے یارو
بے رتبہ...
غزل
بلبل نے جسے جا کے گلستان میں دیکھا
ہم نے اُسے ہر خارِ بیابان میں دیکھا
روشن ہے وہ ہر ایک ستارے میں زلیخا
جس نور کو تُو نے مہِ کنعان میں دیکھا
برہم کرے جمعیّتِ کونین جو پل میں
لٹکا وہ تری زلفِ پریشان میں دیکھا
واعظ تو سنی بولے ہے جس روز کی باتیں
اُس روز کو ہم نے شبِ ہجران میں دیکھا
اے...
غزل
بے وجہہ نئیں ہے آئنہ ہر بار دیکھنا
کوئی دم کو پھولتا ہے یہ گلزار دیکھنا
نرگس کی طرح خاک سے میری اگیں ہیں چشم
ٹُک آن کر یہ حسرتِ دیدار دیکھنا
کھینچے تو تیغ ہے حرمِ دل کی صید پر
اے عشق! پر بھلا تو مجھے مار دیکھنا
ہے نقصِ جان دید ترا پر یہی ہے دھن
جی جاؤ یا رہو مجھے اِک بار دیکھنا
اے طفلِ...