صداقتوں کے عذاب میں ہوں
میں جرم کے ارتکاب میں ہوں
جو اس سے نکلوں تو اور سوچوں
ابھی تو دشت سراب میں ہوں
محاسبہ کیا کروں کسی کا
میں اپنے ہی احتساب میں ہوں
مری بصیرت ہی کیا کہ خود ہی
میں منزل اکتساب میں ہوں
بدلتی قدروں سے میرا رشتہ
میں ہر نئے انقلاب میں ہوں
مرے لیے تو یہی بہت ہے
کہ...