بے جرم و خطا یار نہ کر چشم نمائی، تیوری کو چڑھا کر
اور رنجشِ بے جا سے نہ کر صاف لڑائی، منہ سرخ بنا کر
اس حور کی کب ہم سے ہوئی عہدہ برائی، اتنی نہ جفا کر
کرتا ہوں ترے ہجر میں اے شوخ پری زاد، میں نالہ و فریاد
دیتا نہیں خاطر سے تری اے ستم ایجاد، جب کوئی مری داد
پھر ہار کے دیتا ہوں میں تیری ہی...
داغ دہلوی کی ایک غزل مستزاد
جب ان سے حالِ دلِ مبتلا کہا، تو کہا ۔ "بچائے تجھ سے خدا"
کچھ اور اس کے سوا مدعا کہا، تو کہا ۔ "ہماری جانے بلا"
کہا جو ان سے کہ ہو سر سے پاؤں تک بے عیب ۔ تو بولے وہ "لاریب"
دغا شعار و ستم آشنا کہا، تو کہا ۔ "ملے گی تجھ کو سزا"
غمِ فراق سنایا تو سن کے فرمایا ۔...