یاد پھر آئی تِری، موسم سلونا ہو گیا
شُغل سا آنکھوں کا بس دامن بھگونا ہو گیا
اب کسی سے کیا کہیں ہم کِس لئے برباد ہیں
اب کسی کی کیوں سُنیں جو کچھ تھا ہونا ، ہو گیا
گیت بابُل کے سُنانے تیری سکھیاں آ گئیں
میں تو بس بچپن کا اِک ٹُوٹا کھلونا ہو گیا
میری پلکوں پر مِرے خوابوں کی کرچیں رہ گئیں
نیند...
ہم نے کہا " چلو تمہیں دُور یہاں سے لے چلیں "
کہتی ہے " ٹھیک ہے مگر " اب اس " مگر " کا کیا کریں
اپنا تو اک چراغ تھا ، جس کو ہوا بجھا گئی
ہم نہیں جانتے انہیں ، شمس و قمر کا کیا کریں
قیس کی بات اور تھی ، اس کا نہ کوئی گھر نہ ٹھور
یہ جو ہمارے ساتھ اک گھر بھی ہے ، گھر کا کیا کریں
اوروں کے...
ملاقات
مصحف اقبال توصیفی
ایک نظم مرحوم عوض سعید کے لئے
تم مرے دیدۂ حیران کو دیکھو گے
تو حیران سے رہ جاؤ گے
مجھ کو معلوم ہے پہچان نہیں پاؤ گے
میں دکھاؤں گا تمہیں جب
وہی گلیاں
وہی سڑکیں
وہی گھر
تم نے اک عمر گزاری جس میں
تم کہو گے
یہ مرا گھر
یہ مرا شہر نہیں
میں کہوں گا
یہ وہی شہر ہے ۔۔...
آج ہی مڈحف اقبال توصیفی نے یہ نظم مجھے دی ہے جو میں نے ٹائپ کر دی ہے۔ اور ان کا ایک سوال ہے۔۔احباب اس کے بارے میں سوچیں۔ کیا اس نظم میں شریعت اور دین کے لحاظ سے قابلِ اعتراض کچھ ہے تو نہیں۔ اگرچہ یہ نظم اقبال بھائی نے زبیر رضوی کے جریدے ذہنِ جدید میں بھیج دی ہے، لیکن اعتراض ہونے پر واپس منگوا...