غزل
غلام ہمدانی مصحفیؔ
جی میں سمجھے تھے کہ دُکھ درد یہ سب دُور ہُوئے
ہم تو اِس کُوچے میں آ، اور بھی مجبُور ہُوئے
کل جو ہم اشک فشاں اُ س کی گلی سے گُزرے
سینکڑوں نقشِ قدم خانۂ زنبُور ہُوئے
پُھول بادام کے پیارے مُجھے لگتے ہیں، مگر
تیری آنکھوں کے تئیں دیکھ کے مخمُور ہُوئے
دِل پہ از بس کہ...
کپڑے بدل کے آئے تھے، آگ مجھے لگا گئے
اپنے لباسِ سرخ کی، مجھ کو بھڑک دکھا گئے
بیٹھے ادا سے ایک پل، ناز سے اٹھے پھر سنبھل
پہلو چرا گئے نکل، جی ہی مرا جلا گئے
رکھتے ہی در سے پا بروں، لے گئے صبر اور سکوں
فتنۂ خفتہ تھا جنوں، پھر وہ اسے جگا گئے
مجھ کو تو کام کچھ نہ تھا، گو کہ وہ تھے پری لقا...
چھریاں چلیں شب دل و جگر پر
لعنت ہے اس آہِ بے اثر پر
بالوں نے ترے بلا دکھا دی
جب کھل کے وہ آ رہی کمر پر
نامے کو مرے چھپا رکھے گا
تھا یہ تو گماں نہ نامہ بر پر
پھرتے ہیں جھروکوں کے تلے شاہ
اس کو ہیں امید یک نظر پر
کیا جاگا ہے یہ بھی ہجر کی شب
زردی سی ہے کیوں رخِ قمر پر
پھر غیرتِ عشق...
غزلِ
مُصحفیؔ
گِل کا پُتلا قضا کے ہاتھ میں ہُوں
ہُوں، پر امرِ خُدا کے ہاتھ میں ہُوں
وہ ہی واقف ہے میری کِل کِل سے
سچ عجب آشنا کے ہاتھ میں ہُوں
ہُوں تو گھٹری پَوَن کی مِثلِ حباب
لیکن، آب و ہَوا کے ہاتھ میں ہُوں
کوزہ ہُوں آبِ صاف کا، لیکن!
ڈر ہے اِتنا، فنا کے ہاتھ میں ہُوں
ہُوں مَیں رنگِ حنا...
ایک اور کاوش پیشِ خدمت ہے.
تمام محفلین سے درخواست ہے کہ تنقیدی نظر سے دیکھ کر اپنی قیمتی رائے سے نوازیں۔
مصحفی کی روح سے معذرت کے ساتھ
"رات پردے سے ذرا منہ جو کسو کا نکلا"
منہ کا کھلنا تھا کہ بدبو کا بھبھوکا نکلا
نام "Angel" تھا تو تصویر بھی حوروں جیسی
پر اکاونٹ وہ مرے یار "گلو" کا نکلا
بیٹے...
غزل
(مصحفی غلام ہمدانی)
اب مجھ کو گلے لگاؤ صاحب
یک شب کہیں تم بھی آؤ صاحب
روٹھا ہوں جو تم سے میں تو مجھ کو
آ کر کے تمہیں مناؤ صاحب
بیٹھے رہو میرے سامنے تم
از بہرِ خدا نہ جاؤ صاحب
کچھ خوب نہیں یہ کج ادائی
ہر لحظہ نہ بھوں چڑھاؤ صاحب
رکھتے نہیں پردہ غیر سے تم
جھوٹی قسمیں نہ کھاؤ صاحب
در گزرے...